امام حسین علیہ السلام کی جانب پسر سعد کی روانگی



 Ù‚تل حسین Ú©Û’ بعد ان Ú©ÛŒ پشت اور ان Ú©Û’ سینہ Ú©Ùˆ Ú¯Ú¾ÙˆÚ‘ÙˆÚº سے پامال کر دو کیونکہ انھوںنے دوری اختیار Ú©ÛŒ Ú¾Û’ وہ ناسپاس ھیں۔انھوںنے اختلاف پھیلایاھے، وہ حق ناشناس اور ظلم Ú©Û’ خو گرھیں۔ میری یہ تمنا اور آرزو نھیں Ú¾Û’ کہ موت Ú©Û’ بعد انھیں کوئی نقصان پھنچایا جائے لیکن میں Ù†Û’ عھد کیا Ú¾Û’ کہ مرنے Ú©Û’ بعد ان Ú©Û’ ساتھ ایسا Ú¾ÛŒ کروں گا لہذا اب اگر تم Ù†Û’ ھمارے Ø­Ú©Ù… پر عمل کیا تو Ú¾Ù… تم Ú©Ùˆ ÙˆÚ¾ÛŒ جزا Ùˆ پاداش دیں Ú¯Û’ جو ایک مطیع وفرمانبردار Ú©ÛŒ جزاھوتی Ú¾Û’ اوراگر تم Ù†Û’ انکار کیا تو تم ھمارے عھدے اور فوج سے کنارہ Ú©Ø´ ھوجاوٴ اور فوج Ú©Ùˆ شمر بن Ø°ÛŒ الجوشن Ú©Û’ حوالے کردو کہ ھمیں جو فرمان دینا تھا وہ Ú¾Ù… اسے دے Ú†Ú©Û’ ھیں۔ والسلام       

خط Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بعد عبید اللہ بن زیاد Ù†Û’ شمر بن الجوشن Ú©Ùˆ بلا یا اور اس سے کھا : عمر بن سعد Ú©Û’ پاس یہ خط Ù„Û’ کر جاوٴ Û” میں Ù†Û’ اسے لکھا Ú¾Û’ کہ حسین (علیہ السلام)  اور ان Ú©Û’ اصحاب سے Ú©Ú¾Û’ کہ وہ میرے فرمان پر تسلیم محض Ú¾Ùˆ جائیں! اگر ان لوگو Úº Ù†Û’ ایسا کیا تو فوراً ان لوگوں Ú©Ùˆ میرے پاس صحیح وسالم روانہ کردو اور اگر انکار کریں تو ان سے نبردآزما ھوجاوٴ ۔اگر عمر بن سعد Ù†Û’ ایسا کیا تو تم اس Ú©ÛŒ بات سن کر اس Ú©ÛŒ اطاعت کر نا اور اگر اس Ù†Û’ انکار کیا تو تم ان لوگوں سے جنگ کرنا اور ایسے میں تم اس لشکر Ú©Û’ امیر Ú¾ÙˆÚ¯Û’ اور اس پر حملہ کر Ú©Û’ اس Ú©ÛŒ گر دن مار دینا اور اس کا ( یعنی پسر سعد ) سر میرے پاس بھیج دینا Û”[20]جب شمر Ù†Û’ وہ خط اپنے ھاتھوں میں لیا اور اس Ú©Û’ ساتھ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام (کلابی ) جانے Ú©Û’ لئے اٹھاتو عبد اللہ Ù†Û’ کھا: خدا امیر Ú©Ùˆ سلامت رکھے حقیقت یہ Ú¾Û’ کہ عباس ØŒ عبد اللہ ØŒ جعفر اور عثمان یہ سب ھماری بھن ام البنین Ú©Û’ صاجزادے ھیں جو حسین (علیہ السلام)  Ú©Û’ ھمراہ ھیں۔ اگر آپ بھتر سمجھیں تو ان Ú©Û’ لئے ایک امان نامہ Ù„Ú©Ú¾ دیں Û”

ابن زیاد نے جواب دیا : ھاں سر آنکھوں پر، اس کے بعد اپنے کاتب کو بلا یا اور اس نے ان لوگوں کے لئے امان نامہ لکھ دیا ۔ عبد اللہ بن ابی المحل بن حزام کلا بی نے اس امان نامہ کو اپنے غلام کْزمان کے ھمراہ روانہ کیا ۔

 

خط کے ھمراہ شمر کا کر بلا میں ورود

عبید اللہ بن زیاد کاخط لے کر شمر بن ذی الجوشن عمر بن سعد کے پاس پھنچا جب وہ اس کے قریب آیا اور خط پڑھ کر اس کو سنایاتو خط سن کر عمر بن سعد نے اس سے کھا :

”ویلک مالک ! لا قرّ ب اللّٰہ دارک ØŒ وقبّح اللّٰہ ماقدّ مت بہ عليّ ! واللّٰہ  لَاَظنک اٴنت  ثنیتہ اٴن یقبل ماکتبت بہ الیہ اٴفسدت علینا اٴمراًکنّارجونااٴن یصلح ØŒ لایستسلم واللّٰہ حسین اٴن نفساً ابےّة[21]لبین جنبیہ “

 ÙˆØ§Ø¦Û’ Ú¾Ùˆ تجھ پر تو Ù†Û’ یہ کیا کیا !خدا تجھے غارت کرے Û” اللہ تیرا برا کرے! تو میرے پاس کیا Ù„Û’ کر آیا Ú¾Û’Û” خدا Ú©ÛŒ قسم مجھے یقین Ú¾Û’ کہ تو Ù†Û’ چاپلوسی Ú©Û’ ذریعہ اسے میری تحریر پر عمل کرنے سے بازر کھا Ú¾Ùˆ گا ۔تو Ù†Û’ کام خراب کر دیا Û”Ú¾Ù… تو اس امید میں تھے کہ صلح ھوجائے گی۔ خدا Ú©ÛŒ قسم حسین (علیہ السلام)  کبھی بھی خود Ú©Ùˆ ابن زیاد Ú©Û’ رحم وکرم پر نھیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ یں Ú¯Û’ کیونکہ یقینا حسین (علیہ السلام)  Ú©Û’ سینے میں ایک غیور دل Ú¾Û’Û”

شمر کا دل سیاہ ھو چکا تھا اس کو ان سب چیزوں سے کیا مطلب تھا۔ اس نے فوراً پوچھا : تم اتنا بتاوٴ کہ تم کیا کر نا چاھتے ھو ؟ کیا تم امیر کے فرمان کو اجراء کروگے اور ان کے دشمن کو قتل کروگے ؟ اگر نھیں تو ھمارے اور اس لشکر کے درمیان سے ھٹ جاوٴ ۔

 Ø¹Ù…ر بن سعد : نھیں اور نہ Ú¾ÛŒ تیرے لئے کوئی کرامت Ú¾Û’ Û” میں خود Ú¾ÛŒ اس عھدہ پر باقی رھوں گا۔ تو جا اور پیدلوں Ú©ÛŒ فوج Ú©ÛŒ سر براھی انجام دے Û”

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next