آنحضرت(صلی الله علیہ و آلہ وسلم)کی زندگی کے بعض گوشے



دنیا سے جاتے وقت نہ آپ  (ص) Ù†Û’ درہم Ùˆ دینار Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Û’ØŒ نہ غلام Ùˆ کنیز اور نہ Ú¾ÛŒ کوئی بھیڑ اوراونٹ، بلکہ آپ Ú©ÛŒ زرہ بھی مدینہ Ú©Û’ ایک یہودی Ú©Û’ پاس تھی، جسے آپ  (ص) Ù†Û’ گھر والوں Ú©ÛŒ غذا Ú©Û’ انتظام Ú©Û’ لئے خریدے گئے بیس صاع جو Ú©Û’ بدلے گروی رکھوایا تہا۔ [114]

 

دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے :

 

۱۔اس میں کوئی Ø´Ú© نہیں کہ آنحضرت  (ص) Ú©Û’ مقام ومنزلت اور بے نظیر امانت داری Ú©Û’ هوتے هوئے کوئی بھی آپ سے گروی رکھنے کا تقاضا نہیں کرتا تہا، لیکن یہ سمجہانا مقصود تہا کہ قرض Ú©ÛŒ تحریری دستاویز نہ هونے Ú©ÛŒ صورت میں، اسلام Ú©ÛŒ عظیم ترین شخصیت تک، ایک یہودی Ú©Û’ حق میں بھی قانونِ رھن کا خیال رکہے، جو صاحبِ مال Ú©Û’ لئے وثیقہ ہے Û”

 

۲۔لذیذ ترین غذائیں فراہم هونے Ú©Û’ باوجود پوری زندگی جو Ú©ÛŒ روٹی سے اس لئے سیر نہ هوئے کہ کہیں  آنحضرت Ú©ÛŒ غذا رعایا Ú©Û’ نادار ترین فرد Ú©ÛŒ غذاسے بہتر نہ هو۔

آپ (ص) Ú©Û’ ایثار کا نمونہ یہ ہے کہ وہ بیٹی جس Ú©Û’ فضائل سنی اور شیعہ کتب میں بکثرت ذکر کئے گئے ہیں، قرآن مجید میں مباھلہ[115] اور تطھیر[116] جیسی آیات اور حدیث کساء[117] Ùˆ عنوان ِ((سیدة نساء اٴھل الجنة))[118] جیسے بلند مرتبہ مضمون پر مشتمل احادیث جو اس انسان کامل میں ممکنہ کمال ِانسانی Ú©Û’ مکمل تحقق Ú©ÛŒ دلیل ہیں، ایسی بیٹی جس Ú©Û’ توسط سے رسول خدا  (ص) Ú©ÛŒ نسل تاقیات باقی رہے گی، وہ جس Ú©ÛŒ آغوش میں مطلعِ نجومِ ھدایت اور ائمہ اطہار پروان چڑھتے رہے اور پیغمبر اسلام(ص)Ú©Û’ نزدیک جس Ú©Û’ احترام کا عالم یہ تہا کہ جب بھی آنحضرت (ص)Ú©ÛŒ خدمت میں تشریف لاتیں آنحضرت(ص) اپنی جگہ پر بٹہاتے اور ہاتھوں کا بوسہ لیا کرتے تہے۔[119]وہ بیٹی جووالد گرامی Ú©ÛŒ اقتداء میں محراب عبادت میں اتنا قیام کرتیں کہ دونوں پاؤں پر ورم آجاتا[120] اور اتنا زیادہ محو عبادت هونے Ú©Û’ باوجود امیر المومنین(ع)Ú©Û’ گھر اس طرح خانہ داری کرتیں کہ ایک دن جب  پیغمبر اسلام(ص)تشریف لائے تو آپ بچے Ú©Ùˆ دودھ پلانے Ú©Û’ ساتھ ساتھ Ú†Ú©ÛŒ بھی چلا رھی تہیں، آنحضرت  (ص) Ù†Û’ آنسوؤں سے تر آنکھوں Ú©Û’ ساتھ یہ رقت بار منظر دیکہا اور فرمایا:((تعجلی(تجرئی)مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة))[121] تو آنحضرت  Ú©Û’ جواب میں کہا:((یا رسول اللّٰہ(ص))! الحمد للّٰہ علی نعمائہ والشکر للّٰہ علی آلائہ))Û” ایسی بیٹی اپنے Ú†Ú©ÛŒ چلانے Ú©ÛŒ وجہ سے Ú¯Ù¹Û’ Ù¾Ú‘Û’ هوئے ہاتھو Úº کولے کر  والد گرامی Ú©Û’ پاس کنیز مانگنے Ú©Û’ لئے تو آئی لیکن اپنی حاجت بیان کئے بغیرلوٹ گئی اور وہ باپ جو اگر چاہتا تو بیٹی Ú©Û’ گھر میں رزو جواھر کا انبار لگا سکتا تہا، خدمت گزاری Ú©Û’ لئے غلام اور کنیزیں دے سکتا تہا، اس Ù†Û’ خدمت گزارکے بجائے چونتیس مرتبہ تکبیر، تینتیس مرتبہ تحمید اور تینتیس مرتبہ تسبیح تعلیم فرمائی۔[122]

یہ ہے کردار ِحضرت ختمی مرتبت(ص) ،کہ اتنے سخت حالات میں زندگی بسر کرنے والی ایسی بیٹی Ú©Û’ مقابلے میں  ناداروں Ú©Û’ ساتھ کس طرح ایثار فرماتے ہیں اور وہ ہے والد گرامی Ú©ÛŒ صبر Ú©ÛŒ تلقین  Ú©Û’ جواب میں مادی ومعنوی نعمتوں کا شکر بجا لانے والی صدیقہ کبریٰ، جو رضا بقضائے الٰھی میںفنا اور الطاف الھیہ میں استغراق کا ایسا نمونہ پیش کرتی ہے کہ کڑواہٹ Ú©Ùˆ مٹہاس اور مصیبت وپریشانی Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ نعمت قرار دیتے هوئے ا س پر صبر Ú©Û’ بجائے حمد وشکر Ú©Ùˆ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے Û”

آپ  (ص)Ú©Û’ اخلاق وکردار کا نمونہ یہ ہے کہ خاک پر بیٹھتے[123] غلاموں Ú©Û’ ساتھ کہانا کہاتے اور بچوں کوسلام کرتے تہے Û”[124]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 next