انتظار اور منتظر کے خصوصیات (1)



کیونکہ اس کے ھمت ہار جانے کے بعد کوئی بھی اسے اس بھنور سے باہر نھیں نکال سکتا اور نہ ھی اس کی ڈوبتی ھو ئی کشتی کو ساحل نجات تک پہنچا سکتا ھے۔اور کبھی کبھی تو یہ شکست کسی فرد یا جماعت تک محدود نھیں رہتی بلکہ پورے ملک یاسیاسی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ھے جیسا کہ ھم نے ماضی قریب میں سوویت یونین کا زوال دیکھا ھے جو ایک سپر پاور ملک تھا۔

جب انسان ثابت قدمی کامظاہرہ کرتا ھے تو خداوندعالم ایسے بندہ کو اس راہ میں ڈٹے رہنے کاعزم وحوصلہ عطا کردیتاھے تو کوئی چیز بھی اس کے قدموں کو نھیں ھلا سکتی اور نہ ھی اس کے آہنی ارادوں میں کوئی تزلزل پیدا ھو سکتا ھے۔بلکہ عجیب بات تو یہ ھے کہ گوشت اور پوست سے بنا ھوا یہ انسان عزم وھمت کا ایک ھمالیہ ثابت ھوتا ھے اوربڑے سے بڑے مصائب کے بالمقابل سیسہ پلائی ھوئی دیوار بن جاتا ھے۔اور اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ اس کی یہ استقامت خداوندعالم کاعطیہ ھوتی ھے۔اور یہ بھی طے شدہ بات ھے کہ اس استقامت کی اصل بنیاد ”امید وآرزو“ھی ھے ان دونوں باتوں کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نھیں ھے:

ایک تو یہ کہ انتظار سے ”آرزو اورامید “کی کرن پیدا ھو تی ھے اور انسانی زندگی پر مایوسی کے چھائے ھوئے بادل چھٹ جاتے ھیں۔

دوسرے یہ کہ آرزو اور امید سے انسان کو ثبات قدم کا عزم وحوصلہ ملتا ھے۔

دوسری قسم :یہ ھے کہ انسان کے پاس اس کے بارے میں خود فیصلہ کرنے بلکہ اس میں اصلاح وترمیم کرنے کی صلاحیت موجود ھو۔جیسے بیماری سے شفا یاب ھونا ،یا کسی تعمیری ،تجارتی ،یا علمی منصوبہ کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانا ،دشمن پر فتحیاب ھونا،فقیری سے نجات پانا وغیرہ کہ یہاں بھی ایک طرح کا انتظار ھی ھے اور ان تمام امور میںعجلت یا تاخیر خودانسان کے اختیار میں ھے۔

انسان کے لئے یہ بھی ممکن ھے کہ وہ بیماری سے جلد ی شفایاب ھوجائے یا اس میں تاخیر کر دے یا شفا حاصل ھی نہ کرے،یا یہ کہ کسی تجارتی وتعمیری اور علمی منصوبہ کو جلد سے جلد مکمل کر لے یا اسے دیر تک معطل رکھے یا مثلاً دولت وثروت یا دشمن پر فتح حاصل کرے یا ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔

 Ø§Ø³ انتظار کاانداز گذشتہ انتظار سے بالکل مختلف Ú¾Û’ کیونکہ اسے جس چیز کا انتظار Ú¾Û’ اس Ú©Ùˆ حاصل کرنے میں جلدی یا تاخیر حتی کہ اس سے صرف نظر کرنا خود انسان Ú©Û’ اختیار میں Ú¾Û’Û”

اس طرح انتظار کی دوسری قسم میں انسان کے اندر ”آرزو“اور ”استقامت“ کے علاوہ ”تحریک حرکت اور جد وجہد“بھی پیدا ھو تی ھے۔اس طرح ”تحریک حرکت“انتظار کی صرف اسی قسم کالازمہ ھے۔کیونکہ جب کسی انسان یہ معلوم ھو جائے کہ اسے نجات اور کامیابی اسی وقت مل سکتی ھے جب وہ جد وجہداور دوڑ دھوپ کرے تو وہ ایسا ضرورکرے گا چنانچہ اس یقین کے بعد اس کی زندگی کا نقشہ یکسر تبدیل ھو جاتاھے اور وہ لگن کے ساتھ باقاعدہ محنت ومشقت شروع کر دیتا ھے جب کہ اس کی زندگی میں پھلے ان چیزوںکا نام ونشان نھیں ھے۔

مختصر یہ کہ انتظار کی پھلی قسم میں ”امیدوآرزو “اور ”استقامت“کے علاوہ انسان کے بس میں کچھ نھیں ھوتا لیکن انتظار کی دوسری قسم میں آرزو اور استقامت کے علاوہ اس کے اندر عزم وحوصلہ اور جوش وجذبہ (تحریک وحرکت)بھی پیدا ھو جاتاھے۔

Û±Û”  انسان Ú©Û’ دل میں آرزو پیدا ھوتی Ú¾Û’ تو وہ حال Ú©Û’ دریچوں سے اپنے مستقل کودیکھنے Ú©ÛŒ کوشش کرتا Ú¾Û’ دو طرح Ú©Û’ افراد ھوتے ھیں Ú©Ú†Ú¾ وہ ھوتے ھیں جو صرف اپنی موجودہ مشکلات Ú©ÛŒ عینک سے خدا ،کائنات اور لوگوں Ú©Ùˆ دیکھتے ھےںاور Ú©Ú†Ú¾ وہ جو ان تمام چیزوں Ú©Ùˆ ماضی،حال اور مستقل Ú©Û’ آئینے میں دیکھتے ھیںان دونوں افراد Ú©Û’ درمیان بہت نمایاں فرق پایا جاتا Ú¾Û’ ۔کیونکہ Ù¾Ú¾Ù„Û’ طرز نگاہ میں دھندھلاپن ،تاریکی اور منفی رخ پایاجاتا Ú¾Û’ جب کہ دوسرا طرز نگاہ ان چیزوں قطعاً مبراھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next