انتظار اور منتظر کے خصوصیات (1)



اس نظریہ کے بارے میں چند اعتراضات قابل توجہ ھیں:

۱۔ دنیا کے ظلم وجورسے بھر جانے کا یہ مطلب ہرگز نھیں ھے کہ روئے زمین پر توحید اور عدل وانصاف کا نام ونشان نہ رہ جائے اور کوئی علاقہ ایسا نہ رہ جائے جس پر خدا کی عبادت نہ ھوتی ھو۔کیونکہ یہ بات محال اور سنت الٰھی کے بر خلاف ھے۔

بلکہ اس سے مراد یہ ھے کہ حق وباطل کے درمیان جو دائمی کشمکش جاری ھے اس میں حق پر باطل کا غلبہ ھو جائے گا۔

۲۔ حق کے اوپر باطل کا موجودہ دور سے زیادہ غلبہ بھی ناممکن ھے کیونکہ اس وقت ظلم روئے زمین پراپنی بد ترین شکل اور مقدار میں موجود ھے جیسے سربیائی درندوںکے ہاتھوں بوسنیا کے مسلمان جس ظلم وتشدد کا شکار ھوئے ھیں اس کی نظیر تاریخ ظلم وتشدد میں کم ھی نظر آتی ھے ۔اس ظلم وتشدداور قتل عام کے دوران تو بسا اوقات نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سربیائی ظالموں نے حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے ان کی کوکھ میں پروان چڑھنے والے بچوں کو شکم سے باہر نکال کر پھینک دیا، چھوٹے چھوٹے بچوں کے سر قلم کرکے ما ں باپ اور گھر والوں کے سامنے ان سے فٹبال کھیلا گیا۔

چیچنیا میںروسیوں نے مسلمان بچوں کو زندہ ذبح کر کے ان کا گوشت سوروں کو کھلایا،اسی طرح مشرق وسطی کے مسلمانوں پر کمیونسٹوں نے اپنی کمیونسٹ حکومت کے دوران جو ظلم ڈھائے ھیںان کو سن کر ھی انسان کے رونگٹے کھڑے ھو جاتے ھیں۔

یا اسرائیل Ú©ÛŒ جیلوں میں مسلمانوں Ú©Ùˆ جس وحشیانہ انداز سے تکلیفیں دی جاتی ھیں انھیں الفاظ Ú©Û’ ذریعہ بیان کرنا ممکن نھیں Ú¾Û’ ۔اور ان تمام مظالم سے کھیں زیادہ عراق میں صدامی جلادوں Ú©Û’ ذریعہ جو مظالم ھوئے یا Ú¾Ùˆ رھے ھیں، جس طرح مومنین Ú©ÛŒ نسل Ú©Ø´ÛŒ Ú©ÛŒ گئی  ان کا صفایاکیا گیا اور ان Ú©Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ کر دئیے گئے ،یہ دل Ú©Ùˆ دھلانے والے ایسے حقائق ھیں جن Ú©ÛŒ توصیف سے الفاظ بھی بے بس ھیں Û”

میراخیال ھے کہ اس وقت دنیا کے تقریباً ہر گوشے میں مسلمانوں کے خلاف ظلم وتشدد کا جو سلسلہ جاری ھے یہ ایک ایسی ڈراونی اور خوفناک صورت حال ھے جو ظلم وجور سے بھی تجاوز کر چکی ھے بلکہ ”زمین کے ظلم وجور سے بھر جانے“سے مزید کی نشاندھی کرتی ھے ۔ بلکہ یہ تو دنیا کی موجودہ قوموں اور مادیت میں گرفتار انسانیت کے مردہ ضمیر ھونے اورانسانیت کے سوتے خشک ھو جانے کی علامت ھے۔اور ضمیروں کا مردہ ھونا یا انسانیت کے سوتے خشک ھو جانا خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ھے جو تہذیب وتمدن اور تاریخ انسانیت کو مسلسل پستی وبربادی کی طرف لے جاتی ھے اور اس منزل تک پہنچا تی ھے جسے قرآن مجید نے ”امتوں کی ھلاکت وتباھی“ کا نام دیا ھے۔

 Ø¶Ù…یر انسان Ú©ÛŒ انتہائی اھم اور بنیادی ضرورتوںمیں شامل Ú¾Û’ اور جس طرح انسان ”امن وسکون “ ØŒ ”دواوعلاج“کھانے پانی ،”سیاسی نظام“ اور علم Ú©Û’ بغیر زندہ نھیں رہ سکتا اسی طرح ضمیر Ú©Û’ بغیر بھی اس کا زندہ رہنا ممکن نھیں Ú¾Û’ ۔لہٰذا جب بھی ضمیر کا حیات بخش چشمہ خشک Ú¾Ùˆ جائے تو پھر تہذیب وتمدن کا خاتمہ ایک فطری بات Ú¾Û’ اور جب اس کا خاتمہ Ú¾Ùˆ جائے گا تو پھر تبدیلی ،جانشینی اور وراثت کا قانون اپنا کام کرے گا۔اور یھی وہ وقت ھوگا جب امام زمانہ (عجل)Ú©ÛŒ ھمہ گیر اور عالمی حکومت قائم ھوگی۔

۳۔ امام زمانہ (عجل)کی غیبت کی بنیادی وجہ شر وفساد اور ظلم وجور کی کثرت ھے اور اگر یہ سب نہ ھوتا تو آپ(ع) ھماری نظروں سے غائب نہ ھوتے آخر یھی ظلم وجور امام زمانہ (عجل)کے ظھور کاسبب کیسے بن سکتا ھے؟

۴۔ لوگوں کی توقع کے برخلاف ظالم ،سیاسی ،فوجی اور اقتصادی ادارے آہستہ آہستہ تباہ وبرباد ھو رھے ھیں جس کا مشاہدہ دنیا میں ہر جگہ کیا جا سکتا ھے ۔جیسا کہ ھم نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ھے کہ چند مھینوں کے اندر ھی سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ھوگیا یہ نظام کھوکھلی عمارت کی طرح ھو گیا تھا اور اسے باقی رکھنا یا انہدام سے بچانا کسی کے بس میں نھیںتھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next