اھل بیت(علیہم السلام)کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں (1)



میں اس پر اس قدر آنسو بھاتا ھوں کہ میرے اھل و عیال میرے چھرہ پر اس کا اثر دیکھتے ھیں۔ میں کھانا نھیں کھاتاخدا آپ کے آنسوؤں پر رحم کرے۔۔۔

جو ھماری خوشی میں خوشی اور ھمارے غم میں غم مناتے ھیں اور ھمارے خوف میں خوف زدہ ھوتے ھیں اور جب ھم امان میں ھوتے ھیں تو وہ خودکوامان میں محسوس کرتے ھیں۔ تم مرتے دم دیکھوگے کہ تمھارے پاس میرے آباء و اجدادآئے ھیں اور تمھارے بارے میں ملک الموت کو تاکید کر رھے ھیں اور تمھیں ایسی بشارت دے رھے ھیں کہ جس سے مرنے سے پھلے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی ھو جائیں گی۔ نتیجہ میں ملک الموت تمھارے لئے اس سے زیادہ مھربان ھو جائے گا کہ جتنی شفیق ماں بیٹے پر مھربان ھوتی ھے۔[14]

ابان بن تغلب سے مروی ھے انھوں نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے روایت کی ھے کہ آپ(علیہ السلام) نے فرمایا:

ھمارے اوپر ھونے والے ظلم پر رنجیدہ ھونے والے کی سانس تسبیح،ھمارے لئے اہتمام کرنا عبادت اور ھمارے راز کو چھپانا راہِ خدا میں جھاد ھے ۔[15]

ھم اسی خاندان سے ھیں،ھم عقیدہ، اصول، محبت، بغض، ولاء اور براٴت میں ان کی طرف منسوب ھوتے ھیں۔ اور اس محبت و ولاء کی علامت ان کی خوشی و غم میں خوش اور غمگین ھونا ھے ۔لیکن ھم اپنے اس رنج و مسرت کو کیوں ظاھر کرتے ھیں اور اس کو دل و نفس کی گھرائی سے نکال کر نعرہ زنی کی صورت میں کیوں لاتے ھیں اور اس کو معاشرہ میں دوستوں اور دشمنوں کے در میان کیوں ظاھر کرتے ھیں۔

اور اھل بیت(علیہم السلام) کی حدیثوں میں اس رنج و بکا خصوصاً مصائب حسین(علیہ السلام) کے اظھار کی کیوں تاکید کی گئی ھے ۔

بکر بن محمد ازدی نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے روایت کی ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فضیل سے فرمایا: تم لوگ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ھو؟ عرض کی: میں آپ پر قربان، ھاں ھم ایسا ھی کرتے ھیں۔ فرمایا: میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ھوں لہٰذا تم( ان مجلسوں میں) ھمارے امر کو زندہ کرو، خدا رحم کرے اس شخص پر جس نے ھمارے امرکو زندہ کیا۔[16]

یہ اظھارغم اور نعرہ زنی ھماری ایمانی کیفیت کا اعلان ھے( یہ ھماری تہذیبی، سیاسی اور ثقافتی وابستگی کا اظھار ھے ) یہ اعلان و اظھار اور نعرہ زنی اھل بیت(علیہم السلام) سے ھماری وابستگی کا اعلان ھے۔یہ وہ چیز ھے جس کی ھم نے مرور زمانہ میں حفاظت کی ھے جس کو ھم نے سیاسی و ثقافتی حملوں سے آج تک بچایا ھے ۔

ھمراھی اور اتباع

شاید لفظ ھمراھی و معیت مکتب اھل بیت(علیہم السلام) سے منسوب ھونے کے لئے بہترین لفظ ھے، خوشحالی و بدحالی،تنگی و کشادگی،اور صلح و جنگ میںھم انھیں کے ساتھ ھیں،یہ لفظ زیارت جامعہ میں وارد ھوا ھے گویا ترانہٴ ولاء کا ایک جملہ ھے ”معکم معکم لا مع عدوکم۔۔“ میں آپ کے ساتھ ھوں آپ کے ساتھ، آپ کے دشمن کے ساتھ نھیں ھوں ۔۔۔زیارت کا یہ ٹکڑا بعض روایاتوں میں وارد ھوا ھے: لا مع غیرکم -اوریہ جملہ لا مع عدوکم “ کی بہ نسبت زیادہ وسیع ھے ۔

ثقافتی اتباع

ولاء میں اتباع کا مفھوم زیادہ وسعت رکھتا ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next