اھل بیت(علیہم السلام)کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں (1)



اور ھم ان کی محبت اور ان کے دشمنوں سے بیزاری کے ذریعہ خداسے قریب ھوتے ھیں۔ چنانچہ زیارت عاشورہ میں ھے:

” انی اتقرب الیٰ اللّٰہ بموالاتکم و بالبرائة ممن قاتلک و نصب لک الحرب“

میں آپ کی محبت اور اس شخص سے بیزاری کے ساتھ خدا کاتقرب چاہتا ھوں کہ جس نے آپ(علیہ السلام) سے قتال کیا اور آپ سے جنگ کی۔

رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت ھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا:

”من اٴطاعنی فقد اٴطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ و من عصی علیاً فقد عصانی“۔ [8]

جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی( اسی طرح ) جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔

ابن عباس سے مروی ھے کہ انھوں نے کھا: نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے علی(علیہ السلام) کی طرف دیکھا اور فرمایا: اے علی! میں دنیا و آخرت میں سید و سردار ھوں تمھارا دوست میرا دوست ھے اور میرا دوست خدا کا دوست ھے اور تمھارا دشمن میرا دشمن ھے اور میرا دشمن خدا کا دشمن ھے۔(۲)؟؟/؟؟

اسلام میں تولیٰ اور تبری کے مفھوم کے باریک نکات میں سے یہ بھی ھے کہ ھم ولایت خدا اور ولایت اھل بیت(علیہم السلام) کے درمیان جومحکم توحیدی ربط ھے اسے دقیق طریقہ سے سمجھیں اور دونوں ولایتوں کے درمیان توحیدی توازن کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ اسلام میں جو بھی ولایت ھے وہ خد اکی ولایت کے تحت ھی ھوگی ورنہ وہ باطل ھے اور جو بھی اطاعت ھے اسے بھی خدا کی اطاعت ھی کے تحت ھونا چاہئے اور اگر خدا کی طاعت کے تحت نھیں ھے تو وہ باطل ھے اور ھر محبت کو خدا کی محبت کے تحت ھوناچاہئے ورنہ خدا کے میزان میں اس کی کوئی قیمت و حیثیت نھیں ھوگی۔

اس سیاق میں یہ بھی ھے کہ اھل بیت(علیہم السلام) خدا کی طرف راھنمائی کرنے والے اور اس کی طرف بلانے والے ھیں اور اس کے امر سے حکم کرنے والے ھیں، اس کے سامنے سراپا تسلیم ھیں اورخداکے راستہ کی طرف ھدایت کرنے والے ھیں۔

یہ قضیہ کا ایک پھلو ھے، اس کا دوسرا حصہ یہ ھے کہ جو شخص خدا کو چاہتا ھے اور اس کے راستہ، اس کی مرضی اور اس کے حکم و حدود کو دوست رکھتا ھے اسے اھل بیت(علیہم السلام) کے راستہ پرچلنا چاہئے اور انکے عمل کو اختیار کرنا چاہئے،اس توحیدی معادلہ کے دونوں اطراف کو ملاحظہ فرمائیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next