اھل بیت(علیہم السلام)کی محبت و عقیدت سے متعلق کچھ باتیں (1)



زیارت جامعہ میں آیا ھے: الیٰ اللّٰہ تدعون و علیہ تدلون و بہ توٴمنون ولہ تسلمون و باٴمرہ تعملون و الیٰ سبیلہ ترشدون و بقولہ تحکمون۔

آپ اللہ کی طرف بلاتے ھیں اور اسی کی طرف راھنمائی کرتے ھیں اور اسی پر ایمان رکھتے ھیں اور اسی کے سامنے سراپا تسلیم ھیں اور اسی کے امر کے مطابق عمل کرتے ھیں اور اس کے راستہ کی طرف ھدایت کرتے ھیں اور اس کے قول کے مطابق حکم دیتے ھیں۔

یہ قضیہ کا ایک سرا ھے اور اس کا دوسرا سرا یہ ھے:

”من اراد اللّٰہ بدء بکم و من وحدہ قبل عنکم و من قصدہ توجہ بکم“

اس کی تاکید ایک بار پھر کردوں کہ ھم ولاء کو خدا کی ولایت کے تحت اسی توحیدی طریقہ سے سمجھ سکتے ھیں، اگر اھل بیت(علیہم السلام)کی ولایت، طاعت اور محبت ولایت خدا کے تحت نھیں ھے تو وہ اھل بیت(علیہم السلام) کی تعلیم اور ان کے قول کے خلاف ھے ۔

سلام و نصیحت

یہ بھی ولاء کے دو رخ ھیں یعنی صاحبان امر کے ساتھ کس طرح پیش آئیں،سلام اس لگاؤ کا سلبی رخ ھے اور نصیحت اس لگاؤ کا ایجابی رخ ھے،اس کی تشریح ملاحظہ فرمائیں:

صاحبان امر(رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور اھل بیت(علیہم السلام))پر سلام بھیجنا جیسا کہ زیارات کی نصوص میں وارد ھوا ھے یہ سلام مقولہ خطاب سے نھیں ھے بلکہ سلام کا تعلق مقولہٴ ارتباط و علاقہ سے ھے اور خطاب کو علاقہ اور ارتباط سے تعبیر کیا جاتا ھے ۔

صاحبانِ امر پر جو سلام بھیجا جاتا ھے اس کے باریک معنی یہ ھیں کہ ھم انھیں اپنے افعال و اعمال کے ذریعہ اذیت نہ دیں کیونکہ وہ ھمارے اعمال کو دیکھتے ھیں جیساکہ سورہٴ قدر اور دوسری روایات اس کی گواھی دے رھی ھیں۔

ان کے دوستوں کے برے اعمال اور ان کا گناھوں اور معصیتوں میں آلودہ ھونا انھیں تکلیف پھنچاتا ھے اسی طرح ان دو فرشتوں کو رنجیدہ کرتا ھے جو ان کے ساتھ رہتے ھیں اور ان کے دوستوں کے نیک و صالح اعمال انھیں خوش کرتے ھیں،ھم صاحبان امر پر سلام والی بحث کو زیادہ طول نھیں دینا چاہتے ھیں۔

ان پر سلام سے متعلق زیارتیں معمور ھیں، زیارت جامعہ غیر معروفہ میں،کہ جس کو شیخ صدوق ۺ نے( کتاب من لا یحضرہ الفقیہ )میں امام رضا(علیہ السلام) سے نقل کیا ھے، سلاموں کا سلسلہ ھے ھم ان میںسے ایک حصہ یھاں نقل کرتے ھیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next