عورت ، گوہر ہستي



قرآن مجيد جب باايمان انسانوں کيلئے کوئي مثالي نمونہ پيش کرنا چاہتا ہے تو مردو ں سے مثال نہيں لاتا بلکہ خواتين ميں سے ايک خاتون کو بطورمثالي نمونہ پيش کرتا ہے ۔ ’’مَثَلاً لِلَّذِينَ آمَنُوا امرَآَتَ فِرعَونَ‘‘١۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں خداوند متعال مومن اور نيک انسانوں ميں سے دو خواتين کوبطورمثال اور آئيڈيل کي حيثيت سے پيش کرتا ہے ۔ يعني جب خداوند عالم انسانيت اورمعنوي کمال کيلئے مثالي نمونہ پيش کرنا چاہتا ہے تو پيغمبروں، عظيم مردوں اورعلمي وديني شخصيات کا ذکر کرنے کے بجائے دو خواتين کو نمونے کے طور پر پيش کرتا ہے ۔اُن ميں سے ايک ،زن فرعون ہے ۔ ’’اِذ قَالَتْ رَبِّ ابنِ لِي عِندَکَ بَيتاًفِي الْجَنَّۃِ‘‘ ١ ، يعني وہ عورت جو اپنے شوہر کي طاغوتي اور سرکش قدرت سے لڑنے کيلئے ڈٹي رہي اور وہ عورت جو اپنے پورے استقلال کے ساتھ اپنے متجاوز، قدرت مند، فرعون نامي اور فرعون صفت شوہر کے سامنے ثابت قدمي سے رہي ۔ عورت کي عظمت يہاں ہے کہ اس کا شوہر ضلالت وگمراہي کے راستے کواُس پرمسلط نہ کرسکے،خواہ وہ شوہر ، فرعون جيسا يا اس جيسي طاقت وقدرت کامالک ہي کيوں نہ ہو! لاکھوں مرد، فرعون کي قدرت وطاقت کے سامنے تسليم اور اس کے ارادے کے اسير وغلام ہيں ليکن خوداِس مرد کي بيوي ، خود اِس کے گھر ميں اِس کے ارادوں اورقدرت کي اسير نہيں ہے بلکہ آزاد ہے اوروہ خدا پر ايمان لاتي ہے ، فرعون (کے جاہ وحشم، مال و ثروت اور تخت و تاج اوراُس ) کے راستے کو خير آباد کہتي ہے اور اِس کے مقابلے ميں راہ خدا اورراہ حق کا انتخاب کرتي ہے ۔ يہي وجہ ہے کے اُسے عظيم و شائستہ اورقابل ِ مثال انسان کي حيثيت سے ،نہ صرف خواتين سے بلکہ تمام بني نوع انسان سے منتخب کيا جاتا ہے ۔

---------

١ سورئہ تحريم / ١١

دوسري مثالي عورت، دختر حضرت عمران،مادر حضرت عيسي ٴ، حضرت مريم ہيں ۔ ’’مَريَمَ ابنَۃَ عِمرَانَ‘‘ ٢۔مريم وہ جوان لڑکي ہے کہ جو اپنے شہر کے تمام مردوں کي تمہت اوربدترين اورکثيف ترين سوئ ظن کے مقابلے ميں مضبوط کوہ کي مانند جمي رہي اور خدا نے اپني قدرت کاملہ کے ذريعے کلمۃُ اللہ اورروح کو اُس کے پاکيزہ دامن ميں قرار ديا۔ وہ خدا کے نبي کي تربيت اپنے ذمہ ليتي ہے اور اپنے فرزند کو اُس زمانے کي تاريک دنيا کي نورانيت کا باعث بناتي ہے ۔ يہ دو خواتين ہيں کہ جنہوں نے دنيا ميں نور افشاني کي ہے ۔ يہ سب اس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ کہ اس امر ميں اسرار و رموز پوشيدہ ہيں کہ ان تمام انسانوں کي کثير تعداد ميں سے کہ جہاں اولين وآخرين کي خلائق جمع ہيں، جب خداوند عالم ، عالم بشريت سے دو انسانوں کو مثال اورنمونے کے طور پر انتخاب کرتااوراُنہيں متعارف کرانا چاہتا ہے تو صرف دو خواتين کو منتخب کرتا ہے، نہ کہ دو مردوں ياايک مردايک عورت کو بلکہ صرف اورصرف دو خواتين کو۔

------------

١ سورئہ تحريم / ١١’’جب زن فرعون نے کہا کہ اے ميرے رب ميرے ليے اپنے پاس جنت ميں ايک گھر بنادے‘‘ ٢ سورہ تحريم / ١٢

پس اس پہلے ميدان يعني انسان روحاني ترقي اور معنوي کمال کے ميدان ميں ، مردو عورت ميں کوئي فرق نہيں ہے ۔ عورت ،مرد کے مثل اورمرد، عورت کي مانند، دونوں قرب خدا اور روحانيت کے اعليٰ مدارج ومراتب تک رسائي حاصل کرسکتے ہيں ۔ لہٰذا خداوند عالم قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’اِنّ المُسلمِينَ والمُسلماتِ والمومِنينَ و المُومنِاتِ والقَانِتِينَ وَالقاَنِتاتِ والصّادِقِينَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِينَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِينَ و المُتصَدِّقاتِ والصَّآئِمِينَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِينَ فُرُوجَہُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِينَ اللّٰہَ کَثِيراً والذَّاکِراتِ‘‘ ١۔ خداوند عالم نے (اسلام، ايمان، اطاعت ، صداقت،صبر، خشوع و فروتني،صدقہ دينے ، روزے داري، شرمگاہ کي حفاظت اور ذکر الٰہي جيسے اہم ترين معنوي امور ميں) مرد وعورت کوايک دوسرے کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے ۔ ’’ اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُم مَغفِرَۃً وَّ اَجراً عَظِيماً‘‘٢ (خدا نے ان مردو خواتين کيلئے مغفرت اور اجر عظيم مہيا کر رکھا ہے)۔ يہ وہ پہلا ميدان ہے کہ جہاں مرد وعورت ميں کوئي تفاوت نہيں ہے ۔

ب: اجتماعي فعاليت کا ميدان

دوسرا ميدان کہ جہاں خواتين اپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہيں وہ اجتماعي فعاليت کاميدان ہے ۔ خواہ وہ فعاليت اقتصادي ہو يا سياسي،يا خاص معنوں ميں اجتماعي فعاليت ہو يا تحصيل علم اور تحقيق وريسرچ ،تعليم و تدريس اورراہ خدا سميت زندگي کے تمام شعبوں ميں جدوجہد اورمحنت کرناہو ، ان تمام شعبہ ہائے زندگي ميں مختلف قسم کي فعاليت اورمحنت و جدوجہد کرنے ميں مر دو عورت ميں اسلام کي نگاہ ميں کوئي فرق نہيں ہے ۔

اگر کوئي يہ کہے کہ مرد کو تحصيل علم کا حق ہے ، عورت کو نہيں، مرد تدريس کرسکتاہے، عورت نہيں؛ مرد اقتصادي و معاشي ميدان ميں آگے بڑھ سکتا ہے ، عورت کو اقتصاد ومعيشت سے کيا سروکار اور مرد سياسي فعاليت انجام دے سکتا ہے ، عورت کا سياست سے کيا کام؟تو نہ صرف يہ کہ اِس کہنے والے نے اسلام کي منطق کو بيان نہيں کيا بلکہ برخلاف اسلام، سخن اُس کے لبوںپر آئي ہے ۔ اسلام کي نگاہ ميں انساني معاشرے اور زندگي کے تمام شعبوں سے مربوط فعاليت ميں مرد وعورت دونوںکو شرکت کي اجازت ہے اور دونوں اس امر ميں مشترک ہيں ۔ہاں البتہ بعض ايسے کام ہيں جو خواتين کے کرنے کے نہيں ہيں چونکہ اُس کي جسماني ساخت اور اُس کي طبيعت و مزاج اورفطرت سے مطابقت نہيں رکھتے ۔ بعض کام ايسے ہيں جنہيں انجام دينا مرد کے بس کي بات نہيں ہے چونکہ اُس کي جسماني، اخلاقي اور روحي صفات و عادات سے ميل نہيں کھاتے ۔ اس موضوع کا اِس سے کوئي تعلق نہيں ہے کہ عورت اجتماعي فعاليت کے ميدان ميں سرگرم عمل ہوسکتي ہے يانہيں ۔ کاموں کي تقسيم در حقيقت امکانات ،شوق اور اُس کام کے تقاضوں اور اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے کي گئي ہے ۔ اگر عورت شوق رکھتي ہو تو وہ معاشرتي زندگي سے مربوط مختلف قسم کي اجتماعي فعاليت کو انجام دے سکتي ہے ۔

---------



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next