عورت ، گوہر ہستي



يہي وجہ ہے کہ جب ايران کي اسلامي تحريک، اسلامي انقلاب کي دہليز تک پہنچي تو ہماري خواتين نے اسلام کي خواتين کے بارے ميں اِسي نظريے اور تعليمات کي روشني ميں قدم اٹھائے اور سامنے آئيں ۔ اسي وجہ سے امام خميني۲ نے فرمايا تھا اور صحيح فرمايا تھا کہ ’’اگر خواتين اس تحريک ميں مدد نہ کرتيں تو انقلاب کبھي کامياب نہيں ہوتا‘‘۔ يقينا اگر خواتين انقلاب کے زمانے ميں ہونے والے بڑے بڑے عظيم الشان مظاہروںميں شرکت نہيں کرتيں تو انقلاب کاميابي سے ہمکنار نہيں ہوتا۔ آٹھ سالہ تھونپي گئي جنگ کي تمام مدت ميں بھي انہي خواتين کي مانند تين تين شہيدوں اور ديگر شہدا کي مائيں اور بيوياں کہ مجھے ان جيسے ہزاروں افراد سے گفتگو کرنے اور نزديک سے اُن کے احساسات کا مشاہدہ کرنے کا فخر حاصل ہے، اگر اپنے جوان بيٹوں اورمردوں کي فداکاري کے نتيجے ميں اُن کے زخمي جسموں اورکٹے ہوئے اعضائ و جوارح اور تمام مشکلات کا اپنے ايمان ، صبر ، استقامت ، معرفت اورشعور اور آگاہي سے جواب نہيں ديتيں تو جنگ کبھي کامياب نہ ہوتي ۔ اگر ان شہدا کي مائيں اور بيوياں بے صبري کا مظاہرہ کرتيں تو مردوں کے دلوں ميںجہاد في سبيل اللہ اورشوق شہادت کے جذبات ٹھنڈے پڑجاتے،يہ جو ش وخروش سامنے نہيں آتا اورہمارے معاشرے کو اِس طرح جوش و ولولہ اور حوصلہ نہيں ملتا ۔ميدان جنگ ميں بھي خواتين نے بہت کليدي کردار ادا کيا ہے ۔ اگرانقلاب کے مختلف مراحل ، مظاہروں اور انتخابات سميت ديگر ميدانوں ميں خواتين اگر ايثار و فداکاري سے کام نہيں ليتيں اوراپنے فعال کردار کو ادا نہيں کرتيں تو يہ عظيم عوامي تحريک يقينا آج اس صورت ميں موجود نہيں ہوتي ۔ يہ ہے اسلام کي نظر اوراسلامي نظام ميں خواتين کا کردار۔

------------

١ بحار الانوار، جلد ١٠٠، صفہ٢٥٣

خواتين پر مغرب کا ظلم اور خيانت

اہل مغرب کو خواتين کے بارے ميں اپني خيانت کا ہر صورت ميں جوابدہ ہونا چاہيے کيونکہ مغربي تہذيب و تمدن نے عورت کو کچھ نہيں ديا ہے ۔جہاں کہيں بھي علمي ، سياسي اورفکري پيشرفت اورترقي کا مشاہدہ کيا جارہا ہے يہ خواتين کي اپني کوششوں کا نتيجہ ہے ۔ دنيا ميں جہاں بھي يہ صورتحال سامنے آئے ہے،ايران ہوياديگر ممالک، سب جگہ خود خواتين نے جدوجہد کي ہے ۔

وہ چيز جس کو مغرب نے خود پروان چڑھايا اورمغربي تمدن نے جس عمارت کي ٹيڑھي بنياد رکھي وہ ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد ، مرد و عورت کے آزادانہ تعلقات اور عرياني و فحاشي ہے ۔انہوں نے عورت کي نہ صرف يہ کہ گھر ميں اصلاح نہيں کي بلکہ عورت کو (گھر سے باہر نکال کر )بے حيائي اور عرياني و فحاشي کي طرف کھينچ کر لے گئے ۔ امريکي اوريورپي اخبارات ومطبوعات ميں بارہا خواتين کو دي جانے والي اذيت و آزار، مشکلات، بے توجہي اورسنگ دلي کے واقعات اورخبريں چھپتي رہتي ہيں ۔ خواتين کو بے بند وباري، آزادانہ (جنسي و غير جنسي) تعلقات اورعرياني وفحاشي کي طرف کھينچنے کے نتيجے ميں مغرب کے خانداني اور عائلي نظام کي بنياديں کمزور ہوگئي ہيں،وہاں گھرانے اور خاندان کا شيرازہ روز بروز بکھرتا جارہا ہے اور اس بات کا سبب بنا ہے کہ وہ اورگھرانے اور خاندان ميں مرد وعورت کي ايک دوسرے سے خيانت کو سہل انگاري سے ديکھيں، کيا يہ گناہ نہيں ہے؟ کيا يہ صنفِ نازک سے خيانت نہيں ہے؟ اس کثيف ترين ثقافت اور تمدن کے باوجود بھي يہ لوگ دنيا پر اپني برتري کے خواہاں ہيں جبکہ انہيں جوابدہ ہونا چاہيے!

مغربي ثقافت کو خواتين کے بارے ميں اپنے ظلم و خيانت کي وجہ سے دفاعي حالت ميں ہونا چاہيے کہ وہ اپنے امور اور اقدامات کا دفاع کريں اور ان کي وضاحت کريں ۔ليکن سرمايہ دارانہ نظام اور مستکبرانہ ذرائع ابلاغ کا مغربي معاشرے پر تسلط اورغلبہ اِس حقيقت کو الٹا ہي پيش کررہا ہے ۔ جس کے نتيجے ميں وہ حقوق نسواں کے چيمپئن بنے بيٹھے ہيں اور خود اُن کي اپني اصلاح کے مطابق حقوق نسواں کے علمبردار وطرفدار ہيں! حالانکہ ايسي کوئي چيز وجود نہيں رکھتي ۔ البتہ مغرب ميں کچھ مفکرين ،فلسفي حضرات اور سچے اور نيک انسانوں کا جود بھي ہے جو پاک نيتوں کے حامل ہيں اور(حق کي) بات کرتے ہيں ۔ جو کچھ ميں بيان کررہا ہوں وہ خواتين پر مغربي ثقافت اور تمدن کے ظلم و خيانت کي عمومي شکل ہے ۔

خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے

ايران (سميت ديگر اسلامي ممالک) کي خواتين کي کوشش يہ ہوني چاہيے کہ وہ ايک مسلمان عورت کي حقيقي تشخص کو اس طرح زندہ کريں کہ وہ پوري دنيا کو اپني طرف متوجہ کراسکے ۔ يہ ہے آج کي مسلمان عورت کا وظيفہ خصوصاً جوان خواتين اور اسکول ، کالج اور يونيورسٹي کي طالبات کا۔

اسلامي تشخص يہ ہے کہ عورت جب اپني خاص زنانہ خصوصيات اور نسوانہ مزاج و تشخص کي حفاظت کرے کہ جو اس کي طبيعت و فطرت سے عبارت ہے اور ہر جنس (موجود) کي خصوصيات ہي اُس کي قدر و قيمت و اہميت کا باعث ہوتي ہيں، يعني جب ايک عورت اپنے نرم و نازک اور لطيف احساسات، پيار ومحبت ،عشق و چاہت اور خاص نسوانہ صفات کي حفاظت کرے تو اُسي کے ساتھ ساتھ معنوي اقدار کے ميدان ميں علم ، تقويٰ، تقرب خدا، معرفت الٰہي اور وادي عرفان ميں پيشرفت کرے اور ساتھ ہي سياسي اور اجتماعي مسائل، صبر،استقامت، سياسي فعاليت، سياسي شعور، اپنے مستقبل، اپنے ملک سميت ديگر اسلامي ممالک اور مسلمان اقوام کے بڑے اہداف، دشمن اور اس کي سازشوں اور چالوں کي شناخت ميں روزبروز ترقي کرے اور اپني اطلاعات اور آگہي کو زيادہ کرے ۔ اسي طرح ايک عورت پر ضروري ہے کہ اپنے گھرانے اورخاندان ميں عدل و انصاف اور پرسکون ماحول کے ايجاد اور اُن کي بقائ کيلئے بھي سرگرم رہے ۔ ان تمام مسائل سے مربوط قوانين کا وجود اور اُن کي تصحيح اگر لازمي وضروري ہے تو خواتين کو تعليم ، آگاہي ،شعور اور معرفت کے ساتھ ان تمام ميدانوں ميں حرکت کرني چاہيے اور وہ ايک مثالي عورت کا نمونہ پيش کريں ۔ انہيں چاہيے کہ وہ يہ کہيں کہ مسلمان عورت ايسي عورت ہے جو اپنے دين، حجاب ،نسوانيت اور اپنے مزاج کي نرمي و لطافت کي حفاظت کرتي ہے، اپنے حق کا نہ صرف يہ کہ دفاع بھي کرتي ہے بلکہ معنويت ،علم و تحقيق اور تقرب الٰہي کے ميدان ميں پيش رفت کرتے ہوئے مثالي خواتين کا نمونہ بھي پيش کرتي ہے اور ساتھ ہي وہ سياسي ميدان ميں بھي اپنا فعال کردار ادا کرتي ہے ۔ ايسي عورت، مسلمان خواتين کيلئے اسوہ اور آئيڈيل بن سکتي ہے ۔ ١

-------------

١ ٢١ ستمبر ٢٠٠٠ ميں خواتين کے ايک بڑے جلسے سے خطاب

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20