عورت ، گوہر ہستي



خانداني نظام زندگي کي اہميت سے رُوگرداني ۔۔۔!

ميري عزيز بہنو! آپ مشاہدہ کيجئے کہ مغربي خواتين کے اپنے گھرانوں ، خاندانوں اور اولاد کو اہميت نہ دينے کي وجہ سے مغربي معاشرے کي نوبت يہاںتک آپہنچي ہے کہ امريکا اور يورپي ممالک ميں آج لاکھوں تباہ حال اوربُرے نوجوان ،دس بارہ سال کي عمر ميں اپني تباہي اوربربادي کا سامان کررہے ہيں ۔حالانکہ يہ وہي ممالک ہيں کہ جہاں مادي تہذيب وتمدن اپنے عروج پر ہے،جن کے بڑے بڑے محل و قصر، بڑے اورترقي يافتہ ايٹمي پلانٹ، سو منزلہ سے زيادہ سر بفلک عمارتيں اور علمي اور ٹيکنالوجي ترقي اور پيش رفت ، زبان زدِخاص وعام ہے ۔ ايسے ماحول ميں يہ نوجوان تباہ و برباد ہورہے ہيں، قاتل ہيں،اسمگلنگ ،منشيات، سگريٹ اور ديگر قسم کے نشوں ميں گرفتار ہيں ۔ ان سب کي کيا وجہ ہے؟ وجہ يہ ہے کہ مغربي عورت گھر ،گھرانے اور خانداني نظام زندگي کي قدر وقيمت سے غافل ہے ۔

گزشتہ زمانے ميں مغربي خواتين کي يہ حالت نہيں تھي ۔ چاليس پچاس سال سے مغربي خواتين کي حالت خصوصاً امريکا اور بعض يورپي ممالک ميں روز بروز بدتر ہوتي چلي گئي ہے ۔ جس دن سے مغربي خواتين نے اِس غلط راہ پر قدم اٹھايا ہے وہ سوچ بھي نہيں سکتي تھيں کہ تيس، چاليس يا پچاس سال ميں اُن کا ملک ومعاشرہ اِس حالت سے دوچار ہوجائے گا کہ بارہ سالہ لڑکا ريوالور سے گولي چلائے، يا تيز خنجر اپني جيب ميں رکھ کر پھرے يا رات يا دن کے کسي حصے ميں نيويارک، لندن يا دوسرے مغربي شہروں کي سڑکوں کے گوشہ وکنار پر کسي کو قتل کرے اور بغير کسي چيز کاملاحظہ کيے ہوئے کسي کو موت کے گھاٹ اتار دے! يہ ہے اُن کي حالت زار! جب کسي معاشرے ميں خاندان اورگھرانے کا شيرازہ بکھر جائے تو اس کي يہي حالت ہوتي ہے ۔

عورت ، گھرانے کي باني اور محافظ

حقيقت تو يہ ہے کہ يہ عورت ہي ہے جو ايک گھرانے اور خاندان کو وجود ميں لاتي ہے اور اُس کا دوام بھي اُسي کے وجود پربرکت سے وابستہ ہے ۔ اِس بات کواچھي طرح ذہن نشين کرليجئے ۔ ايک گھرانے کو تشکيل دينے والا بنيادي اوراساسي عنصر ، عورت ہے نہ کہ مرد۔ مرد کے بغير ممکن ہے کہ کوئي گھرانہ وجود رکھتا ہو۔ يعني فرض کيجئے کہ کوئي ايسا گھرانہ ہو کہ جہاں مرد موجود نہ ہو يا وہ انتقال کر گيا ہو اور گھر کي عورت اگر عاقل ،مدبر اورگھريلو ہو تو وہ اپنے گھرانے کو محفوظ رکھ سکتي ہے، بنابرايں ،يہ عورت ہي ہے جو نہ صرف يہ کہ گھرانے کو وجود ميں لانے کا باعث بنتي ہے بلکہ اس کي حفاظت بھي کرتي ہے ۔

گھرانے اور خاندان ميں عورت کے کردار پر اسلام کي اتني اہميت دينے اور تاکيد کرنے کي وجہ يہي ہے کہ اگر عورت اپنے گھرانے اور خاندان سے مخلص ہو، اُس سے عشق و محبت کرے ، اپني اولاد کي تربيت پر اہميت دے،بچوں کي ديکھ بھال کرے، اُنہيں اپنا دودھ پلائے، اپني آغوش ميں پرورش دے، قرآني قصوں، اسلامي احکامات، سبق آموز کہانيوں اوراسلامي آداب وغيرہ کے ذريعے اُن کي ثقافتي ضرورتوں کو پورا کرے اورہر لمحے سے استفادہ کرتے ہوئے مادي غذاوں کي مانند انہيں اپنے بچوں کي روح کے ذائقے ميں ڈالے تو اُس معاشرے کي نسليں پختہ ، رشيد اور کامياب نسليں ہوں گي ۔ يہ ہے عورت کا ہنر اور فن اور يہ امور اُس کے تحصيل علم ، تدريس ، ملازمت ،فعاليت اور سياست وغيرہ جيسے اہم ميدان ميں قدم رکھنے سے کوئي منافات نہيں رکھتا ہے ۔

گھريلو اوراجتماعي فعاليت ميں توازن ضروري ہے

اسلام کے ابتدائي زمانے ميں خواتين ميدان جنگ ميں زخميوں کي مرہم پٹي کرنے کے علاوہ کہ يہ کام سب سے زيادہ خواتين کے ذمے تھا ،حتي نقاب کے ساتھ بھي اُس زمانے کي سخت اوردوبدو جنگ کے باوجود ، شمشير بھي چلاتي تھيں! اِسي کے ساتھ ساتھ گھر ميں اپنے بچوں کو اپني آغوش ميں ليتيں ،اُن کي اسلامي تربيت کرتيں اور ساتھ ہي اپنے حجاب کي پوري طرح حفاظت بھي کرتيں تھيں کيونکہ ان تمام امور ميں کوئي تصادم نہيں ہے ۔

بعض لوگ افراط کا شکارہيں اور بعض لوگ تفريط کا! کچھ کہتے ہيں کہ چونکہ اجتماعي فعاليت ہميں اجازت نہيں ديتي ہے کہ ہم گھر، شوہر اور بچے داري کريں پس ہميں اجتماعي فعاليت سے دستبردار ہوجانا چاہيے ۔ اِس کے برخلاف کچھ لوگ يہ کہتے ہيں کہ چونکہ گھر، شوہر اور بچے داري کے مسائل اور جھميلے ہمارا پيچھا نہيں چھوڑتے کہ ہم اجتماعي اورمعاشرتي امور ميں قدم رکھيں پس ہميں گھر بار کو خير آباد کہہ دينا چاہيے ۔ يہ دونوں فکر غلط ہيں ۔ نہ اِسے اُس کي خاطر اور نہ اُسے اِس کي وجہ سے چھوڑنا چاہيے ۔

اسلامي انقلاب کي کاميابي ميں خواتين کا کردار

عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں ايک مسلمان عورت اپنے گھرانے ميں بہت سے وظائف کي حامل ہے کہ جو گھرانے ميں اُس کے بنيادي رکن ہونے ، تربيت اولاد، ہدايت اور شوہر کي روحي تقويت کرنے عبارت ہیں ۔ ايران ميں شاہي طاغوتي حکومت سے مقابلوں ميں بہت سے مرد ميدان ِ مبارزہ ميں نبرد ميں مصروف تھے ليکن اُن کي خواتين نے انہيں اجازت نہيں دي کہ وہ شاہي حکومت سے مقابلے کو جاري رکھيں ، کيونکہ ان ميں اِس بات کي قوت نہيں تھي کہ وہ مقابلے کي سختيوں کو تحمل کريں ۔ اِس کے برخلاف بہت سي خواتين اس مبارزے کي راہ ميں استقامت اور ڈٹے رہنے پر نہ صرف يہ کہ اپنے شوہروں کي حوصلہ افزائي کرتيں تھيں بلکہ اُن کي مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کي ہمتوں کو بلند رکھنے کيلئے روحي طور پر اُن کي پشت پناہي بھي کرتيں تھيں ۔سن ١٩٧٧ اور ١٩٧٨کے عوامي مظاہروں ميں جب ملک کے کوچہ و بازار سب عوام سے بھرے پڑے تھے تو خواتين اپنے شوہروں اور بچوں کو مظاہروں ،شاہي حکومت سے مبارزے و مقابلے کرنے اور عوامي رضا کار فوجي (بسيج) کو فعال بنانے ميں اہم اور کليدي کردار کي حامل تھيں ۔

انقلاب اور آٹھ سالہ تھونپي گئي جنگ کے دوران ہماري ماوں نے اپنے بيٹوں کو راہ اسلام ميں سر بہ کف مجاہدوں اور دليروں ميں جبکہ بيويوں نے اپنے شوہروں کو صاحب ِ استقامت اور مضبوط انسان ميں تبديل کرديا تھا۔ يہ ہے اولاد اور شوہر کيلئے بيوي کا کردار اور اس کے عمل کي تاثير۔ يہ وہ کردار ہے کہ جسے ايک عورت اپنے گھر ميں ادا کرسکتي ہے اوريہ اُس کے بنيادي کاموں ميں سے ايک کام ہے اور ميري نظر ميں عورت کا يہ کام اُس کے سب سے زيادہ اہم ترين کاموں ميں شامل ہے ۔ اولاد کي صحيح تربيت اور زندگي کے بڑے بڑے ميدانوں اورامتحانوں ميں قدم رکھنے کيلئے شوہر کي روحي طور پر مدد کرنا ايک عورت کے اہم ترين کاموں ميں شامل ہے ۔ ہم خدا کے شکر گزار ہيں کہ ہماري مسلمان ايراني خواتين نے اس ميدان ميں بھي سب سے زيادہ خدمات انجام ديں ہيں ۔

البتہ ايران کي شجاع، ہوشيار، استقامت اور صبر کرنے والي خواتين نے انقلاب اور جنگ کے زمانے ميں، خواہ محاذ جنگ پر ہوں يا محاذ جنگ کے پيچھے يا پھر گھر کي چار ديواري کے اندر بالعموم تمام ميدانوں ميں بہت فعال کردار ادا کيا ہے اور آج بھي سياست ، ثقافت اورانقلاب کے ميدانوں ميں بھي عالمي دشمنوں کے مقابلے ميں اپنا بھرپور کردار ادا کررہي ہيں ۔

وہ افراد جوہمارے وطن اور اسلامي جمہوريہ کے نظام کا تجزيہ و تحليل کرنا چاہتے ہيں جب اِن مصمّم ارادوں، اس آگاہي اورشعوروشوق کا مشاہدہ کريں گے تو ايراني قوم اور اسلامي جمہوريہ کے نظام کے مقابلے ميں ستائش و تعظيم کا احساس کريں گے ۔ ١



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next