عورت ، گوہر ہستي



ج: گھريلو زندگي کا ميدان

خواتين کي فعاليت کا تيسرا اہم ترين ميدان ، اُن کي گھريلو اور خانداني زندگي ہے ۔ ہم نے معنوي کمال ميں عورت کے کردار پر روشني ڈالي ہے اور ہر قسم کي اجتماعي فعاليت کيلئے اسلامي احکامات کو بھي بيان کيا ہے ۔ ليکن اس تيسرے حصے ميںہم گھريلو اور خانداني زندگي ميں عورت کے اہم کردار کو بيان کريں گے يعني ايک عورت، ايک بيوي اور ماں کے روپ ميں کيا کردار ادا کرسکتي ہے ۔ يہاں اسلام کے احکامات اتنے زيادہ نوراني اور باعث فخر ہيں کہ انسان جب ان احکامات کا مشاہدہ کرتا ہے تو خوشي سے جھوم اٹھتا ہے ۔

١۔ شوہر کا انتخاب

عورت ايک بيوي اورہمسر کي حيثيت سے مختلف مراحل زندگي ميں اسلام کي خاص لطف و عنايت کا مرکز ہے ۔ سب سے پہلے مرحلے ميں انتخاب شوہر کا مسئلہ ہے ۔ اسلام کي نظر ميں عورت، انتخاب شوہر کے مسئلے ميںبالکل آزاد ہے اور کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ شوہر اور اس کے جيون ساتھي کے انتخاب ميں اُس پر کوئي چيز تھونپے يا اپني رائے مسلّط کرے ۔ يہاں تک کہ اُس کے بھائيوں ،باپ يا اُس کے عزيز و اقارب اگر يہ چاہيں کہ اپني رائے يا مرضي و پسند کو اُس پر تھونپيں کہ تم صرف فلاں شخص سے ہي شادي کرو تو انہيں ہرگز يہ حق حاصل نہيں ہے ۔يہ اسلام کي نظر ہے ۔

 

لوگوں کے جاہلانہ آداب و رسوم اور ہيں اور اسلامي احکامات اور !

البتہ اسلامي معاشرے ميں تاريخي پيچ وخم کے نتيجے ميں جاہلانہ عادات ورسوم کاوجود رہا ہے ۔ يہ جاہلانہ عادات ورسوم آج بھي بعض ممالک ميں موجود ہيں ،خود ہمارے ملک کے بعض شہروں ميںبھي موجود ہيں ۔ فرض کيجئے ، جيسا کہ مجھے علم ہے کہ بعض قبائل ميں ہر لڑکي کے چچا زادبھائي کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ اِس لڑکي کي شادي کے بارے ميں اظہار رائے کرے! يہ کام غلط ہے، اسلام نے کسي کو ايسا کام کرنے کي ہرگز اجازت نہيں دي ہے ۔ حقيقت سے بے خبر اور جاہل مسلمان جو بھي کام کريں اُسے اسلام کے کھاتے ميں نہيں ڈالنا چاہيے ۔ يہ جاہلانہ عادات و رسوم ہيں ۔ جاہل اور حقيقت سے بے خبر مسلمان، جاہلانہ آداب و رسوم کے مطابق بہت سے ايسے کام انجام ديتے ہيں کہ جن کا اسلام اور اُس کے نوراني احکامات سے دور دور تک کوئي تعلق نہيں ہے ۔ اگر کوئي کسي لڑکي کو مجبورکرے کہ تم اپنے چچا زاد بھائي سے ہي شادي کرو تو اُس نے خلاف شريعت کام انجام ديا ہے ۔ اگر کوئي اِس لحاظ سے کہ وہ ايک لڑکي کا چچا زاد بھائي ہے اور (جاہلانہ عادات و رسوم کي بنا پر) اُس نے خود کو يہ حق ديا ہے کہ اُسے شادي کرنے سے منع کرے اور اُس سے کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادي نہيں کي پس ميں تم کو کسي اور سے شادي کرنے کي اجازت نہيں دوں گا۔لڑکي کا چچا زاد بھائي اور جو بھي اُس کي اس فعل ميں مدد کرے گا ، وہ خلاف شريعت اور حرام فعل کے مرتکب ہوئے ہيں ۔ اس فعل کا حرام اور خلاف شريعت ہونا بہت ہي واضح ہے اورفقہائے اسلام اس بارے ميں متفق القول ہيں ۔

اگرفرض کريں کہ ايک قبيلہ دوسرے قبيلہ سے اپنے اختلافات مثلاً خون ريزي کے مسئلے کو حل کرنے کيلئے اس طرح اقدامات کريں کہ يہ قبيلہ ايک لڑکي کو اس کي اجازت کے بغير اورمرضي کے خلاف دوسرے قبيلے کے حوالے کردے، يہ کام خلافِ شريعت ہے ۔ البتہ ايک وقت خود لڑکي سے اجازت ليتے ہيں تو اس ميںکوئي قباحت نہيںہے ۔وہ لڑکي ہے، لڑکے کو چاہتي ہے تو اس ميں کوئي عيب نہيں ہے کہ وہ دوسرے قبيلے کے ايک نوجوان سے شادي کرے کہ اس طرح دونوں قبيلوں کا اختلاف ختم ہوسکتا ہے،يہ بہت اچھي بات ہے ليکن اگر لڑکي کو اس کام کيلئے مجبور کيا جائے تو يہ کام شريعت کے سراسر خلاف ہے ۔

بيوي پر شوہر کي اطاعت?!

آپ توجہ فرمايئے کہ اسلامي احکام نے شوہر کے انتخاب اور گھرانے کي تشکيل کي ابتدا ہي سے خواتين کي مدد کرنے کو مدنظر رکھا ہے ۔ چونکہ بہت سے مرد، خواتين پر ظلم و ستم کرتے تھے تو اسي ليے اسلام اُن کے ظلم کے سامنے ڈٹ گيا ہے ۔جب ايک گھرانہ تشکيل پاتا ہے تو اسلام کي نظر ميں گھر کے اندر مرد اور عورت دونوں زندگي ميں شريک ہيں اور دونوں کو چاہيے کہ آپس ميں محبت کا سلوک کريں ۔ مرد کو يہ حق حاصل نہيں ہے کہ بيوي پر ظلم کرے اور بيوي کو بھي يہ حق حاصل نہيں وہ شوہر سے ناحق بات کہے ۔ گھرانے اور خاندان ميں مرد وعورت کے رابطے اور تعلقات بہت ظريف ہيں ۔ خداوند عالم نے مرد و عورت کي طبيعت ومزاج اور اسلامي معاشرے اور مرد وعورت کي مصلحت کومدنظر رکھتے ہوئے ان احکامات کو معين کيا ہے ۔ شوہر ، صرف چند جگہ کہ ميں صرف ايک مقام کو صراحت سے بيان کرنے پر ہي اکتفائ کروں گا اور ديگر مقام کو يہاں بيان نہيں کروں گا، اپني بيوي کو حکم دينے کا حق رکھتا ہے اور بيوي پر لازم ہے کہ اُسے بجالائے ۔ وہ مقام کہ جسے ميں صراحت کے ساتھ بيان کروں گا يہ ہے کہ شوہر اپني بيوي کو اپني اجازت کے بغير گھر سے باہر جانے پر روک سکتا ہے ۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ نکاح ميں اس بارے ميں کوئي شرط نہ رکھي گئي ہو۔ اگر نکاح ميں شرط نہيں لگائي گئي ہوتو مرد بيوي کو روک سکتا ہے ۔ يہ احکام الٰہي کے پيچيدہ اسرار ورموزميں سے ايک راز ہے اور يہ حق صرف شوہر کو ديا گيا ہے ۔ حتي باپ کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے ۔ ايک باپ بھي اپني بيٹي کو اس بات کا پابند نہيں کرسکتا کہ اگر تم باہر جانا چاہو تو مجھ سے اجازت لو ۔ نہ باپ کو يہ حق حاصل ہے ١ اور نہ بھائي کو اپني بہن کيلئے يہ حق ديا گيا ہے ليکن شوہر اپني بيوي کيلئے اس حق کا مالک ہے ۔ البتہ خواتين نکاح کے وقت کچھ شرائط کو نکاح ميں درج کرواسکتي ہيں اور ان شرائط پر مياں بيوي دونوںکو سختي سے عمل در آمد کرنا ہوگا۔بنابرايں، اگر کسي شرط کو نکاح کے ذيل ميں لکھيں تو يہ دوسري بحث ہے ليکن پہلے مرحلے ميں خداوند عالم نے شوہر کو اپني بيوي کي نسبت يہ حق عطا کيا ہے ۔ ايک دو اور ايسے مقامات ہيں کہ جہاں بيوي پر واجب ہے کہ وہ اِن ميں اپنے شوہر کي اطاعت کرے ( کہ في الحال اُن سے صرف نظر کرتا ہوں)۔

مستحکم گھرانے کيلئے مياں بيوي کي صفات و عادات سے استفادہ

يہ سب احکامات، مرد وعورت کي طبيعت و مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے صادر کيے گئے ہيں ۔ مرد و عورت دونوں کے مزاج و فطرت کي اپني اپني خصوصيات ہيں ۔ گھرانے کے اندر مردوں کے فرائض ،کاموں اور مردانہ حوصلے اور جذبے کي عورت سے ہرگز توقع نہيں کرني چاہيے اور اِسي طرح گھر کے ماحول ميں بيوي کي نسوانہ خصوصيات کي مرد سے اميد نہيں رکھني چاہيے ۔ دونوں کي اپني اپني فطري اور روحي صفات و خصوصيات ہيںکہ عالم بشريت ، معاشرے اورمرد وعورت کے اجتماعي نظام کي مصلحت يہي ہے کہ گھرانے ميں دونوں کي خصوصيات وعادات کا اپنے اپنے مقام پر خاص خيال رکھا جائے ۔ اگر ان کا خيال رکھا جائے تو شوہر بھي خوشبخت ہوگا اور بيوي بھي خوشحال رہے گي ۔ ايسے ماحول ميں کسي کو کسي پر ظلم کرنے،زبردستي اپني بات منوانے اور دوسرے سے اپني خدمت کرانے کاکائي حق نہيں ہوگا۔ بعض مرد حضرات يہ خيال کرتے ہيں کہ يہ عورت کي ذمہ داري ہے کہ وہ اپنے سے مربوط تمام کاموں کو انجام دے ۔ البتہ گھر کے ماحول ميں شوہر اور بيوي ايک دوسرے سے محبت کرتے ہيں اور وہ اپنے ذاتي شوق اورميل سے ايک دوسرے کے کاموں اور امور کو انجام ديتے ہيں ۔اپنے ميل و رغبت سے کسي کام کو انجام دينے کا اِس بات سے کوئي تعلق نہيں ہے کوئي (شوہر) يہ خيال کرے يا اِس طرح کا رويہ اختيار کرے کہ اُس کي بيوي کي يہ ذمہ داري ہے کہ وہ اپنے شوہر کي ايک نوکراني کي مانند خدمت کرے ۔ اسلام ميں ايسي چيز کا کوئي وجود نہيں ہے!

------

١ ليکن والدين اپني اولاد کي بہترين تربيت کيلئے اس کے غير مناسب دوستوں اورسہيليوں سے ملنے، آواري گردي کرنے،گناہ کي محفلوں ميں شرکت کرنے اور برائيوں کي طرف قدم بڑھانے اور گناہ کي دلدل ميں اسے پھنسنے سے نجات دينے کيلئے اُسے تحت نظر رکھ سکتے ہيں يا غير ضروري طور پر اُسے باہر جانے سے روک سکتے ہیں ۔ (مترجم)

٢۔ تربيت اولاد

گھر اورگھرانے ميں خواتين کے من جملہ فرائض ميں سے ايک فريضہ ،تربيت اولاد ہے ۔ وہ خواتين جو گھر سے باہر اپني مصروفيات کي وجہ سے صاحب اولاد ہونے ميں پس و پيش سے کام ليتي ہيں تو وہ درحقيقت اپني زنانہ اور بشري طبيعت و مزاج کے خلاف اقدام کرتي ہيں ۔ خداوند عالم اُن کے اس کام سے راضي نہيں ہے ۔ وہ خواتين جو اپنے بچوں ،تربيت اولاد ،بچے کو دودھ پلانے اور اُسے اپني محبت بھري آغوش ميں پرورش کرنے کو اُن کاموں کيلئے کہ جن کا وجود اِن خواتين پر موقوف نہيں ہے،ترک کرديتي ہيں تو وہ غلطي کا شکار ہيں ۔تربيت اولاد کي بہترين روش يہ ہے کہ وہ اپني ماں کي محبت و چاہت کے سائے ميں اپني ممتا کي آغوش ميں پرورش پائے ۔ جو خواتين اپني اولاد کو خداکے عطا کيے ہوئے اس عطيّے سے محروم کرتي ہيں، وہ غلطي کا ارتکاب کررہي ہيں اور اس طرح انہوں نے نہ صرف يہ کہ اپني اولاد کے نقصان کيلئے اقدام کيا ہے بلکہ وہ اپنے اور اپنے معاشرے کيلئے بھي ضرر و زياں کا باعث بني ہيں ۔ اسلام اس چيز کي ہرگز اجازت نہيں ديتا ہے ۔ خواتين کے اہم ترين وظائف ميں ايک وظيفہ يہ بھي ہے کہ وہ اپني اولاد کو محبت و چاہت ،صحيح تربيت، اپنے دل کي پوري توجہ اور تربيت کے اصولوں پر توجہ ديتے ہوئے اِس طرح پرورش ديں کہ يہ انساني موجود خواہ بيٹا ہو يا بيٹي، جب بڑا ہو تو روحي لحاظ سے ايک سالم انسان اور نفسياتي الجھنوں سے دورہو اور ذلت وبدبختي اور ہلاکت ومصيبت کہ جس ميں آج مغرب ويورپ اور امريکي نوجوان نسل گرفتار ہے، کے بغير پرورش پائے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next