عورت ، گوہر ہستي



يورپي عورت کي آزادي کے مغرضانہ مادّي عوامل

محترم خواتين اور خصوصاً جوان لڑکياں کہ جو اِس مسئلے ميں فکر کرنا چاہتي ہيں ، انہيں چاہيے کہ وہ بھرپور توجہ کريں ۔ سب سے اہم نکتہ يہ ہے کہ جب يورپ ميں خواتين کا ’’حق ِ مالکيت‘‘ معين کيا گيا جيسا کہ يورپي معاشرتي ماہرين کي تحقيقاتي سروے رپورٹ سے پتہ چلتا ہے ، اس ليے تھا کہ مغرب ميں صنعت و جديد ٹيکنالوجي کي آمد کے زمانے ميں کارخانوں اور ملوں نے رونق حاصل کي تھي اور انہيں مزدوروں کي سخت ضرورت تھي مگر مزدور کم تھے اور کارخانوں کو مزدوروں کي ايک بڑي تعدار درکار تھي ۔ اِسي ليے انہوں نے خواتين کو کارخانوں کي طرف کھينچا اور اُن کي طاقت و توانائي سے استفادہ کيا۔ البتہ خواتين مزدوروں کو دوسروں کي بہ نسبت کم تنخواہ دي جاتي تھي ، اُس وقت اعلان کيا گيا کہ عورت کو مالکيت کا حق حاصل ہے ! بيسويں صدي کے اوائل ميں يورپ نے خواتين کو ’’حق مالکيت‘‘ ديا۔ يہ ہے خواتين کے بارے ميں مغرب کا افراطي، غلط اور ظالمانہ رويہ۔

جلتا ہوا مغربي معاشرہ!

اس قسم کے افراط کے مقابلے ميں تفريط بھي موجود ہے ۔ جب اُس گھٹن کے ماحول ميں خواتين کے حق ميں اس قسم کي (ظاہراً )پُرسود تحريک شروع ہوتي ہے تو ظاہري سي بات ہے کہ دوسري طرف سے خواتين تفريط کا شکار ہوتي ہیں ۔ لہٰذا آپ ملاحظہ کريں گے کہ ان چند دہائيوں ميں خود آزادي نسواں کے نام پر مغرب ميں کئي قسم کي برائيوں ، فحاشي و عرياني اور بے حيائي نے جنم ليا اور يہ سب برائياں بتدريج رواج پيدا کرتي گئيں کہ جن سے خود مغربي مفکرين بھي حيران و پريشان ہيں ۔ آج مغربي ممالک کے سنجيدہ ، مصلح،خردمند اور سينے ميں دل و تڑپ رکھنے والے افراد اِس جنم لينے والي موجودہ صورتحال سے حيران و پريشان اور ناراض ہيں ليکن وہ اِس سيلاب کا راستہ روکنے سے قاصر ہيں ۔ انہوں نے خواتين کي خدمت کرنے کے نام پر اُن کي زندگي پر ايک بہت کاري ضرب لگائي ہے ، آخر کيوں؟ صرف اِس لئے کہ مرد و عورت کے درميان تعلقات ميں اس لا اُبالي پن، برائيوں اور فحاشي و عرياني کو فروغ دينے اور ہر قسم کي قيد وشرط سے دور مرد وخواتين کي آزادي اور طرز معاشرت نے گھرانے کي بنيادوں کو تباہ و برباد کرديا ہے ۔ وہ مرد جو معاشرے ميں آزادانہ طور پر اپني شہوت کي تشنگي کو بجھا سکے اور وہ عورت جو سماج ميں بغير کسي مشکل اور اعتراض کے مردوں سے مختلف قسم کے روابط برقرار کرسکے، گھر کي چارديواري ميں يہ مرد نہ ايک اچھا شوہر ثابت ہوگا اور نہ ہي يہ عورت ايک اچھي اور بہترين و وفادار بيوي بن سکے گي ۔ يہي وجہ ہے کہ وہاںگھرانے کي بنياديں مکمل طور پر تباہ ہوگئيں ہيں ۔

موجودہ زمانے کي سب سے بڑي بلاوں ميں سے ايک بلا وآفت ’’ گھرانے کے مسائل‘‘ ہيں کہ جس نے مغربي ممالک کو اپنے پنجوں ميں جکڑا ہوا ہے اور انہيں ايک بدترين قسم کي نامطلوب حالت سے دُچار کرديا ہے ۔ لہٰذا ايسے ماحول و معاشرے ميں اگر کوئي خاندان اور گھرانے کے بارے ميں نعرہ لگائے (اور اپني منصوبہ بندي کا اعلان کرے) تو وہ اہل مغرب خصوصاً مغربي خواتين کي نگاہوں ميں وہ ايک مطلوب ومحبوب شخص ہے ، ليکن کيوں؟ اس لئے کہ يہ لوگ مغربي معاشرے ميں خاندان اور گھرانے کي بنيادوں کے تزلزل سے سخت نالاں اور پريشان ہيں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہاں کے عائلي نظام نے وہ چيز جو مرد و خواتين بالخصوص خواتين کيلئے امن و سکون کاماحول فراہم کرتي ہے ، اپنے ہاتھوں سے کھودي ہے ۔ بہت سے گھرانے اور خاندان تباہ و برباد ہوگئے ہيں ، بہت سي ايسي خواتين ہيں جو زندگي کے آخري لمحات تک تنہا زندگي بسر کرتي ہيں، بہت سے مرد ايسے ہيں جو اپني پسند کے مطابق خواتين حاصل نہيں کر پاتے اور بہت سي ايسي شادياں ہيں کہ جو اپنے نئے سفر کے ابتدائي چند سالوں ميں ہي جدائيوں اور طلاق کا شکار ہوجاتي ہيں ۔

ہمارے ملک ميں موجود خاندان اور گھرانے کي جڑيں اور محکم بنياديں ، آج مغرب ميں بہت کم مشاہدہ کي جاتي ہيں ۔ مغربي معاشرے ميں ايسے خاندان بہت کم ہيں کہ جہاں دادا، دادي ، نانا ، ناني ،نواسے ، نواسياں ، پوتے، پوتياں،چچا زاد بہن بھائي اور خاندان کے ديگر افراد ايک دوسرے سے واقف ہوں ، ايک دوسرے کو پہچانتے ہوں اور آپس ميں تعلقات رکھتے ہوں ۔ وہاں ايسے خاندان بہت کمياب ہيں اور وہ ايسا معاشرہ ہے کہ جہاں مياں بيوي بھي ايک گھر کيلئے لازمي و ضروري پيار ومحبت سے عاري ہيں ۔ يہ وہ بلا ہے جو غلط کاموں کو انجام دينے اور ايک طرف سے افراط اور دوسري طرف سے اُس کے مقابل سراٹھانے والي تفريط کے نتيجے ميں اُس معاشرے پر مسلط ہوئي ہے اور اِس کا سب سے زيادہ نقصان مغربي خواتين کو ہوا ہے ۔١

--------

١ تہران کے آزادي جيم خانہ ميں خواتين کي ايک بڑي کانفرنس سے خطاب

           

دوسري فصل

جاہلانہ تمدن و ثقافت کے خطرات و نتائج

حقو ق نسواں، موجودہ دنيا کا ايک گھمبير اور حل نشدہ مسئلہ

حقوق نسواں کے بارے ميں جو دنيا کا ابھي تک ايک حل نشدہ مسئلہ ہے، بہت زيادہ گفتگو کي گئي ہے اور کي جاري ہے ۔ جب ہم اس دنيا کے انساني نقشے اور مختلف انساني معاشروں پر نظر ڈالتے ہيں ، خواہ وہ ہمارے اپنے ملک کا اسلامي معاشرہ ہو يا ديگر اسلامي ممالک کا يا حتي غير اسلامي معاشرے بھي کہ جن ميں پيشرفتہ اور متمدن معاشرے بھي شامل ہيں، تو ہم ديکھتے ہيں کہ ان تمام معاشروں ميں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حقوق نسواں کا مسئلہ ابھي تک حل نہيں ہوا ہے ۔ يہ سب انساني مسائل کے بارے ميں ہماري کج فکري اور غلط سوچ کي نشاني ہے اور اس با ت کي عکاسي کرتے ہيں کہ ہم ان تمام مسائل ميں تنگ نظري کا شکار ہيں ۔ ايسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے تمام بلندو بانگ دعووں،مخلص اور ہمدرد افراد کي تمام تر جدوجہد اور حقوق نسواں اور خواتين کے مسائل کے بارے ميں وسيع پيمانے پر ہونے والي ثقافتي سرگرميوں اور فعاليت کے باوجود اِن دو جنس (مرد و عورت) اور مسئلہ خواتين کہ اِسي کے ذيل ميں مردوں کے مسائل کو ايک اور طرح سے بيان کيا جاتا ہے، کے بارے ميں ايک سيدھے راستے اور صحيح روش کو ابھي تک ڈھونڈھنے سے قاصر ہے ۔

شايد آپ خواتين کے درميان بہت سے ايسي خواتين ہوں کہ جنہوں نے دنيا کي ہنرمند خواتين کے ہنري اور ادبي آثار کو ديکھا يا پڑھا ہو کہ اُن ميں بعض آثار فارسي زبان ميں ترجمہ ہوچکے ہيں اور بعض اپني اصلي زبان ميں موجود ہيں ۔ يہ سب اِسي مذکورہ بالا مسئلے کي عکاسي کرتے ہيں کہ خواتين کے مسائل اور اِسي کے ذيل ميں ان دوجنس ، مرد وعورت کے مسئلے اور بالخصوص انسانيت سے متعلق مسائل کو حل کرنے ميں بشر ابھي تک عاجز و ناتوان ہے ۔ بہ عبارت ديگر؛ زيادتي ، کج فکري اور فکري بدہضمي اور اِن کے نتيجے ميں ظلم و تعدّي، تجاوز، روحي ناپختگي، خاندان اور گھرانوں سے متعلق مشکلات ؛ ان دو جنس۔ مردو زن۔ کے باہمي تعلقات ميں اختلاط و زيادتي سے مربوط مسائل ابھي تک عالم بشريت کے حل نشدہ مسائل کا حصہ ہيں ۔ يعني مادي ميدانوں ميں ترقي، آسماني واديوں اور کہکشاوں ميں پيشقدمي اور سمندروں کي گہرائيوں ميں اتني کشفيات کرنے، نفسياتي پيچيدگيوں اور الجھنوں کي گھتيّوں کو سُلجھانے اور اجتماعي و اقتصادي مسائل ميں اپني تمام تر حيران کن پيشرفت کے باوجود يہ انسان ابھي تک اس ايک مسئلے ميں زمين گير و ناتواں ہے ۔ اگر ميں ان تمام ناکاميوں اور انجام نشدہ امور کو فہرست وار بيان کروں تو اِس کيلئے ايک بڑا وقت درکار ہے کہ جس سے آپ بخوبي واقف ہيں ۔

دنيا ميں ’’خانداني‘‘ بحران کي اصل وجہ!

خانداني مسائل کہ جو آج دنيا کے بنيادي ترين مسائل ميں شمار کيے جاتے ہيں ، کہاں سے جنم ليتے ہيں ؟ کيا يہ خواتين کے مسائل کا نتيجہ ہيں يا پھر مردو عورت کے باہمي رابطے کے نتيجے ميں پيدا ہوتے ہيں؟ ايک خاندان اور گھرانہ جو دنيا ئے بشريت کا اساسي ترين رکن ہے، آج دنيا ميں اتنے بحران کا شکار کيوں ہے؟ يعني اگر کوئي بقول معروف آج کي متمدّن مغربي دنيا ميں خاندان کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کا خواہ ايک مختصر سا ہي منصوبہ کيوں نہ پيش کرے تو اُس کا شاندار استقبال کيا جائے گا، مرد ، خواتين اور بچے سب ہي اُس کا پُرتپاک استقبال کريں گے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next