عورت ، گوہر ہستي



مغربي عورت کي حالت زار

ہميں مغرب سے ابھي بہت کچھ طلب کرنا ہے کہ جس نے تاريخ کے مختلف ادوار سے ليکر آج تک اِس صنفِ نازک کي اتني تحقير و تذليل کي ہے ۔ آپ توجہ کيجئے کہ ابھي ماضي قريب تک يورپ اور مغربي ممالک ميں خواتين کو اپنے مستقل اور جداگانہ مالي حقوق حاصل نہيں تھے ۔ ميں نے ايک دفعہ کافي تحقيق کے بعد اس بارے ميں اعداد و شمار آج سے تقريباً چار ، پانچ سال ١ قبل نماز جمعہ کے کسي خطبے ميں ذکر کيے تھے ۔ مثلاً بيسويں صدي کے اوائل تک اُن تمام بلند و بانگ دعووں ، مغرب ميں روز بروز پھيلنے والي بے حيائي اور حد سے گزر جانے والے اور بے مہار جنسي اختلاط و بے راہ روي کے بعد بھي کہ جس کے بعد يہ لوگ يہ خيال کرتے ہيں کہ عورت کو اس طرح زيادہ احترام و بلند مقام ديا جاتا ہے، مغربي عورت کو يہ حق حاصل نہيں تھا کہ وہ اپنے ذاتي مال و ثروت سے آزادانہ استفادہ کرے! وہ شوہر کے مقابلے ميں اپنے ذاتي مال و دولت کي بھي مالک نہيں تھي! يعني جو عورت بھي شادي کرتي تھي اُس کي تمام جمع پونجي اور مال ودولت سب اُس کے شوہر کي ملکيت ميں چلا جاتا تھا اور عورت کو اپنا ہي مال خرچ کرنے کا کوئي اختيار حاصل نہيں تھا، يہاں تک کہ بيسويں صدي کے اوائل ميں خواتين کو نوکري و ملازمت اور ملکيت کا حق ديا گيا۔ اہل مغرب نے اس مسئلے کو بھي جو انساني حقوق کے بنيادي اور ابتدائي ترين مسائل سے تعلق رکھتا ہے ، عورت کي پہنچ سے دور رکھا۔ جبکہ اپني تمام تر توجہ اُن مسائل کي جانب رکھي کہ جو خواتين کے اُن قيمتي اور حقيقتاً قابل قدر مسائل کے مد مقابل ہيں کہ جن کي اسلام ميں بہت تاکيد کي گئي ہے ۔ يہ جو حجاب اور پردے کے بارے ميں ہمارے يہاں اتني تاکيد کي گئي ہے، اس کي وجہ بھي يہي ہے ٢۔

حقوق نسواں کے بارے ميں استکبار کي غلطي

جاہليت سے مالا مال عالمي استکبار بہت بڑي غلطي ميں ہے کہ جو يہ خيال کرتا ہے کہ ايک عورت کي قدرو قيمت اور بلند مقام اِس ميں ہے کہ وہ خود کو مردوں کيلئے زينت و آرائش کرے تاکہ آوارہ لوگ اسے ديکھيں، اُس سے ہر قسم کي لذت حاصل کريں اور اُس کي تعريف کريں ۔ مغرب کي انحطاط شدہ اورمنحرف ثقافت کي جانب سے ’’آزادي نِسواں‘‘ کے عنوان سے جو چيز سامنے آئي ہے اُس کي بنياد اِس چيز پر قائم ہے کہ عورت کو مردوں کي (حيواني اور شہوتي) نگاہوں کا مرکز بنائيں تاکہ وہ اُس سے جنسي لذت حاصل کرسکيں اور عورت ، مردوں کي جنسي خواہشات کي تکميل کيلئے ايک آلہ و و سيلہ بن جائے، کيا اِسي کو ’’آزادي نسواں‘‘ کہا جاتاہے؟

جو لوگ حقيقت سے جاہل اورغافل مغربي معاشرے اور گمراہ تہذيب و تمدن ميں اِ س بات کا دعويٰ کرتے ہيں کہ وہ انساني حقوق کے طرفدار ہيں تو درحقيقت يہ لوگ عورت پر ظلم کرنے والوں کے زمرے ميں شمار ہوتے ہيں ۔ آپ عورت کو ايک بلند مرتبہ و مقام کے حامل انسان کي حيثيت سے ديکھئے تاکہ معلوم ہو کہ اُس کا کمال ، حق اور اس کي آزادي کيا ہے؟آپ عورت کوعظيم انسانوں کے سائے ميں پرورش پانے والے اور اصلاح معاشرہ کيلئے ايک مفيد عنصر کي حيثيت سے ديکھے تاکہ يہ معلوم ہو کہ اُس کا حق کيا ہے اور وہ کس قسم کي آزادي کي خواہاں ہے ( اور کون سي آزادي اُس کے انساني مقام ومنصب سے ميل کھاتي ہے)۔ آپ عورت کو ايک گھرانے اور خاندان کي تشکيل دينے والے بنيادي عنصر کي حيثيت سے اپني توجہ کا مرکز قرار ديں ۔درست ہے کہ ايک مکمل گھرانہ مرد اور عورت دونوں سے تشکيل پاتا ہے اور يہ دونوں موجود خاندان کي بنياديں رکھنے اور اُ س کي بقا ميں موثر ہيں، ليکن ايک گھرانے کي آسائش اور آرام و سکون عورت کي برکت اور صنفِ نازک کے نرم و لطيف مزاج کي وجہ ہي سے قائم رہتا ہے ۔اس زاويے سے عورت کو ديکھئے تاکہ يہ مشخص ہو کہ وہ کس طرح کمال حاصل کرسکتي ہے اور اُس کے حقوق کن امور سے وابستہ ہيں ۔

---------

١ اگست ، اکتوبر اور نومبر ١٩٨٦ئ ميں نماز جمعہ کے خطبات

٢ خواتين کي ثقافتي کميٹي کے اراکين، مختلف ليڈي ڈاکٹروں اور پہلي اسلامي حجاب کانفرنس کے عہديداروں سے ١٩٩١ئ ميں خطاب

 

جس دن سے اہل يورپ نے جديد ٹيکنالوجي کو حاصل کرنا شروع کيا اور انيسويں صدي کے اوائل ميں مغربي سرمايہ داروں نے جب بڑے بڑے کارخانے لگائے اور جب اُنہيں کم تنخواہ والے سستے مزدوروں کي ضرورت ہوئي تو انہوں نے ’’آزادي نسواں‘‘ کا راگ الاپنا شروع کرديا تاکہ اِس طرح خواتين کو گھروں سے نکال کر کارخانوں کي طرف کھينچ کر لے جائيں، ايک سستے مزدور کي حيثيت سے اُس کي طاقت سے فائدہ اٹھائيں، اپني جيبوں کو پُرکريں اور عورت کو اُس کے بلند مقام و مرتبے سے تنزُّل ديں ۔ مغرب ميں آج جو کچھ ’’آزادي نسواں‘‘ کے نام پر بيان کيا جارہا ہے ، اُس کے پيچھے يہي داستان کار فرماہے ،يہي وجہ ہے کہ مغربي ثقافت ميں عورت پر جو ظلم و ستم ہوا ہے اور مغربي تمدن و ادب ميں عورت کے متعلق جو غلط افکار و نظريات رائج ہيں اُن کي تاريخ ميں مثال نہيں ملتي ۔

مغربي عورت، مرد کي نفساني خواہشات کي تسکين کا وسيلہ

تاريخ ميں سب جگہ عورت پر ظلم ہوا ہے ليکن بڑے پيمانے پر ہونے والا يہ ظلم مثلاً ماضي قريب ميں ہونے والا ظلم دراصل مغربي تمدن کا نتيجہ ہے ۔ اُنہوں نے عورت کو مرد کي شہوت کي تکميل کے ليے ايک وسيلے کي حيثيت سے متعارف کرايا ہے اور اسے آزادي نسواں کا نام ديا ہے! حالانکہ يہ عورت سے جنسي لذت حاصل کرنے والے آوارہ اور ہر قيد و شرط سے آزاد مردوں کي آزادي ہے نہ کہ عورتوں کي ۔

مغرب نے نہ صرف اقتصادو صنعت اور اس جيسے ديگر شعبوں ميں بلکہ ہنر وادب ميں بھي عورت کو اپني ہوس اور ظلم وستم کا نشانہ بنايا ہے ۔ آپ آج مغرب کي کہانيوں ، ناولوں ، مصوّري و نقاشي اور مختلف قسم کے ہنري کاموںکو ملاحظہ کيجيے تو آپ مشاہدہ کريں کہ يہ لوگ عورت ذات کو کس نگاہ و زاويے سے ديکھتے ہيں؟ کيا اِس نظر و زاويے ميں عورت ميں موجود قيمتي اقدار و صفات (اور استعداد ولياقت) پر توجہ دي جاتي ہے؟ کيا عورت سے متعلق يورپي و مغربي طرز فکر ميں عورت ميں خداوند عالم کي طرف سے وديعت کيے گئے نرم و لطيف جذبات، احساسات اور مہرباني و محبت پر کہ جس ميں ماں کي ممتا و پيار اور بچوں کي حفاظت و تربيت شامل ہے، توجہ دي جاتي ہے يا اُس کے شہوتي اور جنسي پہلو اور خود اُن کي تعبير اور اصطلاح کے مطابق عورت کے عشقي پہلو پر ؟ (اُن کي يہ تعبير سراسر غلط ہے اس ليے کہ يہ شہوت پرستي ہے نہ کہ عشق )۔ انہوں نے عورت کي اس طرح پرورش کي، يعني جب بھي اورکوئي بھي چاہے اُسے استعمال کرے اور اسے ايک ايسا مزدور بنادے جو کم طلب اور ارزاں قيمت ہو۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next