عورت ، گوہر ہستي



اگر آپ دنيا ميں ’’خاندان‘‘ کے مسئلے پر تحقيق کريں اور خاندان کے بارے ميں موجود اس بحران کو اپني توجہ اور کاوش کا مرکز قرار ديں تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ ِاس بُحران نے اِن دو جنس يعني مرد وعورت کے درميان باہمي رابطے، تعلّقات اور معاشرے سے مربوط حل نشدہ مسائل سے جنم ليا ہے يا بہ تعبير ديگر يہ نگاہ و زاويہ، غلط ہے ۔ اب ہم لوگ ہيں اور مقابل ميں مرد حضرات کے خود ساختہ افکار و نظريات ہيں، تو جواب ميں ہم يہي کہيں گے کہ خواتين کے مسئلے کو جس نگاہ و زاويے سے ديکھا جارہا ہے وہ صحيح نہيں ہے اور يہ بھي کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کے مسئلے کو اس زاويے سے ديکھنا بھي غير معقول ہے يا مجموعاً ان دونوں کي کيفيت و حالت کا اِس نگاہ سے جائزہ لينا سراسر غلطي ہے ۔

مرد و عورت کي کثير المقدار مشکلات کا علاج

اس مسئلے کي مشکلات ، زيادہ اور مسائل فراوان ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ ان سب کا علاج کيسے ممکن ہے؟ اِن سب کا راہ حل يہ ہے کہ ہم خداوند عالم کے بنائے ہوئے راستے پر چليں ۔ دراصل مرد وعوت کے مسائل کے حل کيلئے پيغام الٰہي ميں بہت ہي اہم مطالب بيان کئے گئے ہيں لہٰذا ہميں ديکھنا چاہيے کہ پيغام الٰہي اِس بارے ميں کيا کہتا ہے ۔ خداوند عالم کے ’’پيغام وحي‘‘ نے اِس مسئلے ميں صرف وعظ و نصيحت کرنے پر ہي اکتفا نہيں کيا ہے بلکہ اس نے راہ حل کيلئے زندہ مثاليں اور عملي نمونے بھي پيش کيے ہيں ۔

آپ ملاحظہ کيجئے کہ خداوند عالم جب تاريخ نبوّت سے مومن انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو قرآن ميں يہ مثال بيان کرتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا امرَآَتَ فِرعَونَ‘‘ ١ ۔ (اللہ نے اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال بيان فرمائي ہے)۔ حضرت موسي ٴ کے زمانے ميں اہل ِ ايمان کي کثير تعداد موجود تھي کہ جنہوں نے ايمان کے حصول کيلئے بہت جدوجہد اور فداکاري کي ليکن خداوند عالم نے ان سب کے بجائے زن فرعون کي مثال پيش کي ہے ۔ آخر اِس کي کيا وجہ ہے؟ کيا خداوند عالم خواتين کي طرفداري کرنا چاہتا ہے يا در پردہ حقيقت کچھ اور ہے؟ حقيقتاً مسئلہ يہ ہے کہ يہ عورت (زن فرعون) خدا کے پسنديدہ اعمال کي بجا آوري کے ذريعے ايسے مقام تک جاپہنچي تھي کہ فقط اُسي کي مثال ہي پيش کي جاسکتي تھي ۔ يہ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام اور حضرت مريم علیھا السلام سے قبل کي بات ہے ۔ فرعون کي بيوي ، نہ پيغمبر ہے اور نہ پيغمبر کي اولاد ، نہ کسي نبي کي بيوي ہے اور نا ہي کسي رسول کے خاندان سے اُس کا تعلق ہے ۔ ايک عورت کي روحاني و معنوي تربيت اور رُشد اُسے اس مقام تک پہنچاتي ہے !

البتہ اس کے مقابلے ميں يعني برائي ميں بھي اتفاقاً يہي چيز ہے ۔ يعني خداوند متعال جب بُرے انسانوں کيلئے مثال بيان کرتاہے تو فرماتا ہے ۔ ’’ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امرَآَتَ نُوحٍ وَّ امرَآَتَ لُوطٍ‘‘ ٢ (اللہ نے اہل کفر کيلئے نوح اور لوط کي بيويوں کي مثال پيش کي ہے)۔ يہاں بھي خدا نے دو عورتوں کي مثال پيش کي ہے کہ جو برے انسانوں سے تعلق رکھتي تھيں ۔ حضرت نوحٴ اور حضرت لوطٴ کے زمانے ميں کافروں کي ايک بہت بڑي تعداد موجود تھي اور ان کا معاشرہ برے افراد سے پُر تھا ليکن قرآن اُن لوگوں کو بطور ِ مثال پيش کرنے کے بجائے حضرت نوحٴ و حضرت لوطٴ کي زوجات کي مثال بيان کرتا ہے ۔

---------

١ سورئہ تحريم / ١١ ٢ سورئہ تحريم / ١٠

اہل ايمان کيلئے زن فرعون کي مثال کے پيش کيے جانے کے ذريعے صِنفِ نازک پر يہ خاص عنايت اورايک عورت کے مختلف عظيم پہلووں اور اُس کے مختلف ابعاد پر توجہ کي اصل وجہ کيا ہے؟ شايد يہ سب اِس جہت سے ہو کہ قرآن يہ چاہتا ہے کہ اُس زمانے کے لوگوں کے باطل اور غلط افکار و نظريات کي جانب اشارہ کرے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُس زمانہ جاہليت کے باطل افکار و عقائد آج بھي ہنوز باقي ہيں ، خواہ وہ جزيرۃ العرب کے لوگ ہوں جو اپني بيٹيوں کو زندہ درگور کرديتے تھے يا دنيا کي بڑي شہنشاہت کے زمانے کے لوگ ہوں مثل روم و ايران۔

يورپ کي موجودہ تمدن کي بنياد

يورپ کے موجودہ تمدن کي بنياد، روم کي قديمي تہذيب و ثقافت پر قائم ہے ۔ يعني يورپ و مغرب اور اُس کے ذيل ميں امريکي تہذيب و ثقافت پر سرسے پير تک جو چيز مسلط و حاکم ہے،وہ وہي اصول و نکات ہيں کہ جو رومي شہنشاہيت کے زمانے ميں موجود تھے اور وہي اصول و قوانين آج ان ممالک کي ثقافت اور تہذيب و تمدن کا معيار بنے ہوئے ہيں ۔ اُس زمانے ميں بھي خواتين کا بہت زيادہ احترام کيا جاتا تھا ، انہيں بہت بلند مقام و مرتبہ دياجاتا تھا اور مختلف قسم کے زيوراور آرائش وزينت سے انہيں مزين کيا جاتا تھا مگر کس ليے؟ صرف اس ليے کہ مرد کي ايک خاکي و پست اور سب سے زيادہ مادي (اور حيواني وشہوتي) خصلت کي سيرابي کا وسيلہ بن سکے! يہ ايک انسان اور صنف نازک کي کتني بڑي تحقير اور توہين ہے !

ايراني شہنشاہيت کے زمانے ميں ايران بھي بالکل ايسا ہي تھا۔ ساساني سلسلہ بادشاہت کے حرم سراوں کے قصے تو آپ نے سنے ہوں گے ۔ حرم سرا کا مطلب آپ کو پتہ ہے؟! حرم سرا يعني عورت کي اہانت وتذليل کي جگہ۔ايک مرد چونکہ قدرت کا حامل ہے لہٰذا وہ خود کو يہ حق ديتا ہے کہ وہ ايک ہزار عورتوں کو اپنے حرم سرا ميں رکھے ۔ اُس زمانے کے بادشاہ کي رعايا کا ہر فرد بھي اگر قدرت و توانائي رکھتا تو وہ بھي اپني حيثيت و طاقت کے مطابق ايک ہزار، پانچ سو، چارسو يا دو سو عورتوں کو اپنے پاس رکھتا۔ يہ واقعات و حقائق عورت سے متعلق کون سے افکار و نظريات کي عکاسي کرتے ہيں؟!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next