عورت ، گوہر ہستي



پہلي فصل

عورت، عالم ہستي کا اہم ترين عنصر

عورت ، عالمِ خلقت کے اہم ترين امور کي ذمہ دار

ميري بہنو! خواتين کا موضوع اورمعاشرے کا اُس سے برتاو اور رويہ ايسا مسئلہ ہے جو ہميشہ سے مختلف معاشروں اورمختلف تہذيب وتمدن ميں زير گفتگو رہا ہے ۔ اس دنيا کي نصف آبادي ہميشہ خواتين پر مشتمل رہي ہے ۔ دنيا ميں زندگي کا قيام جس تناسب سے مردوں سے وابستہ ہے،اُسي طرح خواتين سے بھي مربوط ہے ۔خواتين نے عالم خلقت کے بڑے بڑے کاموں کو فطري طور پر اپنے ذمے ليا ہوا ہے اور تخليق کے بنيادي کام مثلاًبچے کي پيدائش اورتربيت اولاد ، خواتين کے ہاتھوں ميں ہيں ۔ پس خواتين کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے اور مختلف معاشروں ميں مختلف مفکرين اورمختلف اقوام وملل کے اخلاق وعادات ميں ہميشہ سے موضوع بحث رہا ہے ۔ اسلام نے اِن اہم موضوعات ميں سے ايک اہم موضوع کو منتخب کرکے اُسے افراط و تفريط سے بچاتے ہوئے دنيا کے تمام لوگوں کو خبردارکيا ہے ۔

خواتين مرد کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بھي آگے?!

اسلام نے اُن مردوں کو جو اپنے قدرت مند جسم يا مالي توانائي کي وجہ سے مردوں اور خواتين کو اپنا نوکر بناتے ، اُن سے خدمت ليتے اور خواتين کو اذيت وآزار اور کبھي کبھي تحقير کا نشانہ بناتے تھے، مکمل طور پر خاموش کرديا ہے اور خواتين کو اُن کے حقيقي اور مناسب مقام تک پہنچايا ہے بلکہ خواتين کو بعض جہات سے مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے ۔ ’’اِنَّ المُومِنِينَ وَالمُومِنَاتِ وَالمُسلِمِينَ والمُسلِماتِ?‘‘ (قرآن بيان کررہا ہے کہ ) مسلمان مرد اورمسلمان عورت، عابد مرد اور عابدعورت اور نماز شب پڑنے والا مرد اور نماز شب ادا کرنے والي عورت ۔

پس اسلام نے انساني درجات اور روحاني مقامات کو مرد وعورت کے دميان برابر برابر تقسيم کيا ہے ۔ (يعني ان مقامات تک رسائي ان دونوں ميں سے کسي ايک سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دونوں ميں سے کوئي بھي يہ مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اس زاويے سے مرد وعورت ايک دوسرے کے مساوي اور برابر ہيں ۔ جو بھي خدا کيلئے نيک عمل انجام دے گا ’’مِن ذَکَرٍ اَو اُنثيٰ‘‘، خواہ مرد ہو يا عورت، ’’فَلَنُحيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً‘‘ ١ ، ہم اُسے حيات طيبہ عطا کريں گے ۔

اسلام نے کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر ترجيح دي ہے ۔ مثلاً جہاں مرد و عورت ،ماں وباپ کي صورت ميں صاحب اولاد ہيں ۔ اُن کي يہ اولاد اگرچہ کہ دونوں کي مشترکہ اولاد ہے ليکن اولاد کي اپني ماں کيلئے خدمت و ذمے داري باپ کي بہ نسبت زيادہ اور لازمي ہے ۔ اولاد پر ماں کا حق باپ کي بہ نسبت زيادہ ہے اورماں کي نسبت اولاد کا وظيفہ بھي سنگين ہے ۔

خاندان ميں عورت کا حق!

اس سلسلے ميں بہت زيادہ روايات نقل کي گئي ہيں ۔پيغمبر اکرم۰ سے کسي نے سوال کيا: ’’من عبر؟‘‘ (ميں کس سے نيکي کروں)۔ آپ۰ نے جواب ميں فرمايا ’’اُمَّکَ‘‘۔ يعني اپني ماں سے ۔ آپ۰ نے اس کے دوسرے سوال کے جواب ميں بھي يہ فرمايا اوراس کے تيسرے سوال کا يہي جواب ديا ليکن چوتھي مرتبہ جواب ميں فرمايا ’’اَبَاکَ‘‘ (اپنے باپ سے نيکي کرو)۔ پس خاندان کي چار ديواري ميں عورت کا اولاد پر حق بہت سنگين ہے ۔ البتہ اِس وجہ سے نہيں ہے کہ خداوند عالم يہ چاہتا ہے کہ ايک طبقے کو اکثريت پر ترجيح دے بلکہ يہ اِس جہت سے ہے کہ خواتين زيادہ زحمتيں برداشت کرتي ہيں ۔

يہ بھي عدل الٰہي ہے کہ خواتين کي زحمتيں زيادہ ہيں تو اُن کا حق بھي زيادہ ہے اور خواتين زيادہ مشکلات کا سامنا کرتي ہيں لہٰذا اُن کي قدر و قيمت بھي زيادہ ہے ۔ يہ سب عدالتِ الٰہي کي وجہ سے ہے ۔ مالي مسائل ميںمثلاً خاندان اور اُس کي سرپرستي کا حق اوراُس کے مقابل خاندان کو چلانے کي ذمہ داري ميں اسلامي روش ايک متوازن متعادل روش ہے ۔ اسلامي قانون نے اِس بارے ميں اتني سي بھي اجازت نہيں دي ہے کہ مرد يا عورت پر

-------------

١ سورئہ نحل / ٩٧

ذرہ برابر ظلم ہو۔ اسلام نے مرد وعورت دونوں کا حق الگ الگ بيان کياہے اور اُس نے مرد کے پلڑے ميں ايک وزن اور عورت کے پلڑے ميں دوسرا وزن رکھا ہے ۔ اگر اِن موارد ميں اہل فکر توجہ کريں تو وہ ان چيزوں کو ملاحظہ کريں گے ۔ يہ وہ چيزيں ہيں کہ جنہيں کتابوں ميں بھي لکھا گيا ہے ۔ آج ہماري فاضل اور مفکر خواتين الحمدللہ ان تمام مسائل کو دوسروں اور مردوں سے بہتر طور پر جانتي ہيں اوران کي تبليغ بھي کرتي ہيں ۔يہ تھا مرد و عورت کے حقوق کا بيان۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next