عورت ، گوہر ہستي



ميک اَپ شدہ جاہليت اور ٹيکنالوجي کے غرور ميں ڈوبے ہوئے مغربي معاشرے نے ’’اسلامي ثقافت اور اسلامي نکتہ نظر سے عورت کے مقام‘‘کے مقابلے ميں خود کو ايک بڑي مصيبت ميں گرفتار کرکے اپني فعاليت اور جدوجہد کو اور تيز کرديا ہے تاکہ شخصيت زن اورحقوق ِنسواں کي تازہ نسيم کا راستہ روک سکے اور مظلوم خواتين کو اُس تازہ فضا ميں سانس نہيں لينے دے ۔ سيمينار منعقد کيے گئے ، کانفرنسوں کا آغاز کيا گيا، قرارداديں پاس ہوئيں اور مغرب کي پسند کي بنياد پر خواتين کي آزادي کي سخن سامنے آئي ۔ ليکن مسلمان خواتين کو حقوقِ نسواں کے ان مدافعوں کي نہ کوئي حاجت تھي اور نہ ہي انہوں نے اہلِ مغرب کي کوششوں کو سچا اورحق کے مطابق پايا۔ ’’آبِ حيات ‘‘اُن کے کوزے ميں تھا اور وہ تشنہ لب نہيں تھیں، عشق الٰہي کے جام کي شيريني اُن کے دلوں ميں رچي بسي تھي اور وہ بيگانوں کے سامنے دست بہ سوال نہيں تھيں ۔ اگر وہ اپنے حق ميں کسي ظلم و ستم يا حقوق کے ملنے ميں کسي خلل کا مشاہدہ کرتيں تو انہيں حدود الٰہي اور احکام خدا کي عدم پابندي کا نتيجہ قرار ديتيں نہ کہ احکام و حدود الٰہي کو توڑنے کا۔ يہي وجہ ہے کہ اگر وہ اپنے حقوق تک رساني کيلئے کوششيں کرتيں تو مغرب کي تقليد اور اُن کي تاريک ثقافت سے کوئي بھي اثر لئے بغير اسلام کے محور اور اُس کے نوراني احکامات کے مطابق انجام ديتيں ۔

خطبات وتقارير کا يہ منتخب مجموعہ دراصل رہبر معظم حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي دامت برکاتہ کے وہ راہنما اصول ہيں کہ جن ميں انہوں نے خالص اسلام کي نگاہ کو اس خاص زاويے سے بيان فرمايا ہے اور اُن پر تاکيد فرمائي ہے ۔ يہ بيانات دراصل خواتين کے بارے ميں مغرب کے انحطاط اور مشکلات پر ايک عميق اور صادقانہ تجزيہ بھي ہيں اور اسلام کي نگاہ ميں شخصيت اور حقوقِ نسواں پر صحيح نظر بھي، ساتھ ہي حقوقِ نسواں کا پاس رکھنے اور گھرانے کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کيلئے مشفقانہ اور پدارنہ نصيحتيں بھي ۔ البتہ اِس مختصر سي کتاب ميں موجود بيانات خواتين کے بارے ميں رہبر معظم کے تمام بيانات نہيں ہيں بلکہ اُن کا خلاصہ ہيں ۔

ہميں اُميد ہے کہ ان بيانات کا مطالعہ نہ صرف يہ کہ قارئين کے علم ميں اضافے کا باعث ہوگا بلکہ وہ انہيں اپنا سرمشق قرار ديتے ہوئے اپني گمشدہ حقيقت کو پانے کيلئے اسلامي احکامات کي روشني ميں جدوجہد کريں گے، ان شاء اللہ۔

پہلا باب :

مغرب اورخواتين

دريچہ

مغرب اپني تاريخ کے مختلف ادوار ميں خواتين کے بارے ميں شديد قسم کے افراط کا شکار رہا ہے اور اب اِس مسئلے ميں تفريط کي سياہ گھٹاوں نے اُسے آگھيرا ہے ۔ ہم بہت دورکي بات نہيں کررہے ہيں ۔ اقتصادي ، اجتماعي اور تحصيل علم کے مسائل ميں حقوقِ نسواں کو کبھي رسمي نگاہ سے نہيں ديکھا گيا اور وہ ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے اورآج جبکہ مغربي تمدن کي اوج کا زمانہ ہے تو خواتين اورنوجوان لڑکيوں پر جنسي تشدد کے نتيجے ميں پيدا ہونے والي مشکلات، گھرانے ( ميں عدم تربيت و عدم محبت) کے بُحران اور فيمين ازم (حقوق نسواں) کے کھوکھلے نعروں نے مغربي معاشرے کا جنازہ نکال ديا ہے ۔

مرد و خواتين کے باہمي تعلقات ميں آزادانہ ميل ملاپ اور لا اُبالي پن ، مردوں کي لذت و شہوت کي تکميل کيلئے خواتين کا وسيلہ بننا، خواتين کا فضول خرچي، عيش پرستي اور زينت پرستي کي دوڑ ميں شريک ہونا، عرياني، بے پردگي اور برائيوں کا عام ہونا، مردوں کي جنسي آزادي اور حقوقِ نسواں کے بارے ميں مرد اورخواتين کے درميان اختلافات اُن جملہ اجتماعي اور ثقافتي اختلافات ميں سے ہيں کہ جس نے مغرب کو تباہي کے دہانے پر لاکھڑا کيا ہے ۔ دنيا کے انسان اور مسلمان ، اِن ظلم وستم کي وجہ سے مغربي ثقافت کو عدالت کے کٹہرے ميں لے آئے ہيں اور مغرب کو اب ملامت و سرزنش کا نشانہ بننا چاہيے ۔

پہلي فصل

خواتين اور گھرانے کے بارے ميں مغرب کا افراط و تفريط

مغربي ادب ميں عورت کي مظلوميت

سب سے پہلے مغربي معاشرے کي مشکلات اورمغربي ثقافت کے بارے ميں گفتگو کرنا چاہتا ہوں، اُس کے بعد اسلام کي نظر بيان کروں گا۔ اہل مغرب ، عورت کے مزاج کي شناخت اور صنفِ نازک سے برتاو ميں افراط و تفريط کا شکار رہے ہيں ۔ بنيادي طور پر عورت کے بارے ميں مغرب کي نگاہ دراصل غير متوازن اورعدم برابري کي نگاہ ہے ۔ آپ مغرب ميں لگائے جانے والے نعروں کو ملاحظہ کيجئے، يہ کھوکھلے نعرے ہيں اور حقيقت سے کوسوں دور ہيں ۔ ان نعروں سے مغربي ثقافت کي شناخت ممکن نہيں بلکہ مغربي ثقافت کو اُن کے ادب ميں تلاش کرنا چاہيے ۔ جو لوگ مغربي ادب ، يورپي معاشرے کے اشعار، ادبيات،ناول، کہانيوں اور اسکرپٹ سے واقف ہيں ، وہ جانتے ہيں کہ مغربي ثقافت ميں قبل از قرون وسطيٰ کے زمانے سے لے کر اس صدي کے آخر تک عورت کو دوسرا درجہ ديا گيا ہے ۔ جو فرد بھي اس حقيقت کے خلاف دعويٰ کرتا ہے وہ حقيقت کے خلاف بولتا ہے ۔ آپ شيکسپيئر کے ناول کو ديکھئے،آپ ملاحظہ کريں گے کہ اس ناول ميں اور بقيہ مغربي ادب ميں صنف نازک کو کن خيالات ، کس زبان اور کس نگاہ سے ديکھا جاتا ہے ۔ مغربي ادب ميں مرد،عورت کا سرادر،مالک اورصاحب اختيار ہے اور اس ثقافت کي بعض مثاليں اور آثار آج بھي باقي ہيں ۔

آج بھي جب ايک عورت ، مرد سے شادي کرتي ہے اور اپنے شوہر کے گھر ميں قدم رکھتي ہے تو حتي اُس کا خانداني نام (يا اُس کے اصلي نام کے ساتھ اُس کا دوسرا نام )تبديل ہوجاتا ہے اور اب اُس کے نام کے ساتھ شوہر کا نام ليا جاتا ہے ۔ عورت جب تک شادي نہيں کرتي وہ اپنے خانداني نام کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتي ہے ليکن جب وہ شوہر دار ہوجاتي ہے تو عورت کا خانداني نام، مرد کے خانداني نام ميں تبديل ہوجاتا ہے، يہ ہے اہل مغرب کي رسم! ليکن ہمارے ملک ميں نہ تو يہ رسم کبھي تھي اور نہ آج ہے ۔ (ہمارے معاشرے ميں ) عورت اپنے خاندان (ميکے) کے تشخص کو اپنے ساتھ شادي کے بعد بھي محفوظ رکھتي ہے ۔ يہ مغرب کي قديم ثقافت کي نشاني ہے کہ مرد، عورت کا آقا اور مالک ہے ۔

يورپي ثقافت ميں جب ايک عورت اپنے تمام مال و منال کے ساتھ شادي کرتي تھي اور شوہر کے گھر ميں قدم رکھتي تھي تو نہ صرف يہ کہ اُس کا جسم ، مرد کے اختيار ميں ہوتا تھا بلکہ اُس کي تمام ثروت و دولت جو اُس کے باپ اور خاندان (ميکے) کي طرف سے اُسے ملتي تھي، شوہر کے اختيار ميں چلي جاتي تھي ۔ يہ وہ چيز ہے کہ جس کا انکار خود اہلِ مغرب بھي نہيں کرسکتے کيونکہ يہ مغربي ثقافت کا حصہ ہے ۔ مغربي ثقافت ميں جب عورت اپنے خاوند کے گھر ميں قدم رکھتي تھي تو در حقيقت اُس کے شوہر کو اُس کي جان کا بھي اختيار ہوتا تھا! چنانچہ آپ مغربي کہانيوں ، ناولوں اور يورپي معاشرے کے اشعار ميں ملاحظہ کريں گے کہ شوہر ايک اخلاقي مسئلے ميں اختلاف کي وجہ سے اپني بيوي کو قتل کرديتا ہے اورکوئي بھي اُسے سرزنش نہيں کرتا! اسي طرح ايک بيٹي کو بھي اپنے باپ کے گھر ميں کسي قسم کے انتخاب کا کوئي حق حاصل نہيں تھا۔

البتہ يہ بات ضرور ہے کہ اُسي زمانے ميں مغربي معاشرے ميں مرد و خواتين کاطرززندگي ايک حد تک آزادتھا ليکن اِس کے باوجود شادي کااختيار اورشوہر کا انتخاب صرف باپ کے ہاتھ ميں تھا۔ شيکسپيئر کے اِسي ناول ميں جو کچھ آپ ديکھيںگے وہ يہي کچھ ہے کہ ايک لڑکي کو شادي پر مجبور کيا جاتا ہے، ايک عورت اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہوتي ہے اور آپ کو ايک ايسا گھر نظر آئے گا کہ جس ميں عورت سخت دباو ميں گھري ہوئي ہے، غرض جو کچھ بھي ہے وہ اِسي قسم کا ہے ۔ يہ ہے مغربي ادب وثقافت !موجودہ نصف صدي تک مغرب کي يہي ثقافت رہي ہے ۔ البتہ انيسويں صدي کے اواخر ميں وہاں آزادي نسواں کي تحريکيں چلني شروع ہوئي ہيں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 next