آلِ محمد سے کیا مراد ہے؟



عبد الرحمٰن نے کہا کہ بالکل سنائیے ۔ تو پھر کعب نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ ہم آپ اہلبیت پر درود کیسے بھیجیں؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ کہو:

اللھم صل ، علی محمد وا علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و آل ابراہیم و بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و آل ابراہیم انک حمید مجید۔

پس آنحضرت (ص) نے اس حدیث میں آل اور اہل کی تفسیر و تشریح ایک دوسرے کے ذریعے فرمائی۔ اس طرح تفسیر شدہ اور تفسیر کنندہ لفظ ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں ۔ (یعنی آ ل اور اھل) پس لفظ کو بدلا گیا ہے مگر معنی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ۔

اس طرح آل النبی، اہل بیت ہیں اور اہل بیت آل النبی۔ اس حساب سے الفاظ تو مختلف ہیں لیکن معنی کے لحاظ سے متحد۔

اس کے علاوہ ایک دوسری حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان میں کلمہ آل کو کلمہ اہل سے لیا گیا ہے ۔ اور کلمہ اہل میں موجود ہائے ھوز، ھمزہ میں تبدیل ہو گئی۔

اس امر کی نشاندہی اس وقت ہوتی ہے جب ہم کلمہ آل کی تصغیر بنائیں کیونکہ تصغیر کے وقت آل کی ھاء پلٹ آتی ہے اور آل کا تلفظ اھیل ہو جاتا ہے ۔

اب کلمہ آل کے معنی کرتے ہوئے جن لوگوں نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے اور انکا استدلال وہ روایت ہےکہ جس کو ائمہ حدیث نے اپنی مسانید میں ذکر کہا ہے ۔ اور امام مسلم بن حجاج، ابو داؤود اور نسائی ان سب نے مذکورہ حدیث کی سند کو اپنی صحیح میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے اور آخر میں عبد المطلب بن ربیعہ بن الحارث سےمتصل کیا ہے کہ عبد المطلب کہتے ہیں:

میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا کہ تمام صدقات میل کچیل کی مانند ہیں ۔ اور محمد اور آل محمد میں کسی پر حلال نہیں ۔

اور دوسرا استدلال اس حدیث کے ذریعے ہے جس کو امام دارالھجرۃ مالک بن انس اپنی کتاب میں سند کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کی آپ (ص) نے فرمایا:

صدقہ آلِ محمد کے لئے حلال نہیں ہے کیونکہ یہ لوگوں کے اموال کا میل ہے ۔

پس رسول اللہ نے حرمتِ صدقات کو اپنی آل کی خصوصیات میں سے قرار دیا ۔ لہذا وہ لوگ جن پر صدقہ حرام ہے، بنو ہاشم، اور پھر بنو عبد المطلب ہیں ۔ اور جب زید بن ارقم سے پوچھا گیا کہ وہ کون آلِ رسول ہیں کہ جن پر صدقہ حرام ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ول آل علی، آل جعفر، آل عباس اور آل عقیل ہیں (یعنی خاندان والے)۔ اور آل کے یہ معنی پہلے معنی سے ملتے جلتے ہیں ۔

 Ø°ÛŒÙ„ میں ہم صحیح مسلم، کتاب فضائلِ الصحابہ Ú©ÛŒ اس حدیث کا عربی ٹیکسٹ دے رہے ہیں Û”

6378  - حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعا عن ابن علية، قال زهير حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال انطلقت أنا وحصين، بن سبرة وعمر بن مسلم إلى زيد بن أرقم فلما جلسنا إليه قال له حصين لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعت حديثه وغزوت معه وصليت خلفه لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم - قال - يا ابن أخي والله لقد كبرت سني وقدم عهدي ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم فما حدثتكم فاقبلوا وما لا فلا تكلفونيه ‏.‏ ثم قال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا بماء يدعى خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه ووعظ وذكر ثم قال ‏"‏ أما بعد ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب وأنا تارك فيكم ثقلين أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به ‏"‏ ‏.‏ فحث على كتاب الله ورغب فيه ثم قال ‏"‏ وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي ‏"‏ ‏.‏ فقال له حصين ومن أهل بيته يا زيد أليس نساؤه من أهل بيته قال نساؤه من أهل بيته ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده ‏.‏ قال ومن هم قال هم آل علي وآل عقيل وآل جعفر وآل عباس ‏.‏ قال كل هؤلاء حرم الصدقة قال نعم ‏

اللہ محمد و آلِ محمد اور آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے ۔ امین۔

•  صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14