دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


آج بہت سے لوگ ایسے بھی ہیںجو اپنی فکر و عمل میں غلطی اور انحراف رکھتے ہیں حقیقت میں یہ جان بوجھ کر اپنے کام میں غلطی نہیں کرتے ہیں یہ کمزوری صرف شناخت نہ ہونے کا نتیجہ ہے یہ ایسے لوگ ہیں کہ اپنی تعلیم کے دوران اگر بہت زیادہ مسلمان تھے تو بس اتنا کہ نمازی اور روزہ دار تھے ان چیزوں کا ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اسلام کے اصول ومبانی کی شناخت اور تحقیق کریں ؛اس کے بعد جب ملک کے کسی اہم عہدہ پر متمکن ہوئے تو اتنی فرصت کہاں ملتی ہے ؛اپنے ہی کام کے لئے وقت نہیں ملتا تو بھلا پھر کیسے وہ اسلام کے اصول و مبانی کے متعلق تحقیق کریں گے؟ آج ہی ہم کو یہ کام کرنا چاہئے اور اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ یہ لوگ اسلام کو بہتر طریقے سے پہچانیں یہ کوئی شرم کی بات نہیں ہے ہم کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ تعلیمات صرف مدرسے کے بچوّں اوریونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے ہے ایسا نہیں ہے بلکہ سماج کے ہر طبقے کے لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم وزیر یا اس کے نائب سے کہیں آؤ کلاس میں بیٹھ کریہاں پڑھو

ہاں یہ ممکن ہے کسی ذریعہ اور بالواسطہ طور سے ان کے کانوں تک یہ بات پہونچا دی جائے اور کسی نہ کسی طرح سے وہ لوگ ان باتوں سے واقف ہو جائیں؛ جو لوگ آج کل ملک کی سیاست میں اہم عہدہ رکھتے ہیں ان کے علاوہ ہم کو ان لوگوں کے بارے میں بھی فکر ہونی چاہئے جو آگے چل کر اس عہدے پر فائز ہونے والے ہیں اور وہ در اصل یہی طالب علم ہیں جو آج کل مدرسوں یا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں؛ مستقبل کے ذمہ داروں اور عہدے داروں کے متعلق ہم کو ابھی سے فکر کرنی ہوگی اور ہم کو اس کی پلاننگ کرنی ہوگی ،یہاں پر مناسب ہوگا کہ ان باتوں سے متعلق ایک مثال کو بیان کروں:

ایک بڑے اسلامی ملک جسکی آبادی ہمارے ملک سے زیادہ ہے وہاں کے صدر جمہوریہ سے پوچھا گیا کہ آپ اس طرح امریکہ پر کیوں منحصر ہیں انھوں نے جواب دیا کہ امریکہ نے ہمارے ملک کے دو ہزار بڑے اور تعلیم یافتہ افراد کو مختلف حصّوں سے ذخیرہ کر لیا ہے او رانھیں میں سے ہر مرتبہ چالیس افراد ملک کے بڑے عہدوں پر بنے رہتے ہیں یہ ذخیرہ اندازی برابر جاری رہتی ہے آپ اس ملک سے جہاں کے دو ہزار لوگ سیاست کے بلند مقام پر ملک میں فائز ہوں اور ان لوگوں کی تعلیم اور تربیت امریکہ میں ہوئی ہو، کیا توقّع رکھتے ہیں؟

امریکہ نے اس سیاست کو پچاس سال پہلے اپنایاتھا اور آج ا س کا فائدہ حاصل کر رہا ہے؛ اگر ہم آپ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آگے پچاس سال تک اسلامی حکومت قائم رہے تو اس کے لئے آج ہی سے پلاننگ کرنی ہوگی اور آیندہ ہونے والے ذمہ دار افراد کے بارے میں فکری اورثقافتی کام کو انجام دینا ہوگا یہ نہیں کہ ہم بیٹھے رہیں اور جب کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کو دور کرنے کے لئے نئے سرے سے غوروفکر کریں یہ عقلی اور منطقی کام نہیں ہے بلکہ اس کی فکر ہم کو پہلے سے کرنی ہوگی۔

اساتید کرام! میں نے اس گفتگو میں جو وقت لیا ہے اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہ انھیں طالب علموں سے جو آپ کے ماتحت تعلیم حاصل کر رہے ہیں آگے چل کر ملک کے ذمہ دار صدر جمہوریہ سے لیکر وزیر اور نائب وزیر ،پار لیمنٹ کے ممبر اور تعلیم و تربیت کے مدیر ہونگے ؛ لہذٰا آپ لوگوں کو خود اسلام کے اصول اورعقیدے کے بارے میں گہری نظر اور شناخت رکھنی چاہئے تا کہ آپ طالب علموں کو منتقل کر سکتے ہوں ۔لیکن اگر کسی طالب علم نے آپ سے کوئی سوال کیا اور آپ اس کو مطمئن نہیں کر سکے تو وہ یہی کہے گا کہ جب یونیورسٹی کے بزرگ استاد سے جواب نہیں ہو سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے اس کے بعد اگر ہم جیسے عالم دین سے پوچھا اور جواب اس نے بھی نہیں دیا تو اس کے لئے یقینی ہو جائے گا کہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے لہٰذایہ لوگ جو خدا، رسول، اسلاماور مسلمانوں کے متعلّق گفتگو کرتے ہیں اس کی کوئی اساس ا و ربنیاد نہیں ہے ۔

آخری نتیجہ یہ ہے کہ میں عالم دین ہونے کی وجہ سے اور آپ لوگ یونیورسٹی کے استاد ہونے کی حیثیت سے اہم ذمہ داری رکھتے ہیں جس کے ذریعہ سے ہم لوگ کلچر کی اصلاح نیز اس ملک کی آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں دوسروں کے بہ نسبت ہم لوگوں کی ذمہ داری زیادہ سنگین اور عظیم ہے لہٰذاہم کو چاہئے کہ اپنے علم کو وسیع اور مضبوط کر کے اور اسلام کے اصول و مبانی کو پہچان کر اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے قدم آگے بڑھائیں ۔

 

دینی پلورالزم(١)

ہمارے زمانے کا عظیم بحران

جس زمانے اور جس دور میں ہم لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں خاص طور سے آخری دس سالوں کا عرصہ اگر اس کو بحران کے دور کے نام سے یاد کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ؛ انسانی تمدّن کی تاریخ میں مختلف زمانے دیکھے گئے ہیں جو کہ مختلف مناسبتوں کی وجہ سے الگ الگ ناموں سے یاد کئے گئے ہیں لیکن کسی بھی زمانے میں ایسا عظیم ثقافتی بحران نہیں دیکھا گیا کہ ایک اعتبار سے اسے بحرانی ہو ےّت کا نام دیا گیا ہے ۔ اگر آج ہم ترقی یافتہ ممالک کے ثقافتی مسائل کے بارے میں توجہ کریں اور گفتگو کریں تو ایک عجیب آشفتگی،سرگردانی،ابہام اور شدید فکری شکّاکیت(شک پرستی)کو دیکھیں گے کہ ایسا شکّاکیت سے لبریز زمانہ کبھی نہیں دیکھا گیا تھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next