دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


 

اور بندوں سے سوال کے بارے میں دوسری جگہ اسی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: ''وقفوہم انہم مسئولون''(١) ان لوگوں کو روکو ان سے سوال کرناہے ایک جگہ اور قرآن میں فرماتا ہے : ''وکان عھداللہ مسئولا '' (٢)اور خدا کا عہدو پیمان ہمیشہ قابل سوال ہے''ایک جگہ اور فرماتا ہے'' ثم لتسئلنّ یو مئذٍ عن النعیم''(٣) اس دن (قیامت کے دن ) خدا کی نعمت کے بارے میں سوال ہوگا '' ۔

..............

(١)سورہ صافات : آیہ ٢٤۔

.(٢)سورہ احزاب : آیہ ١٥۔

(٣)سورہ تکاثر : آیہ ٦۔

 

طاقت اور ذمہ داری کا توازن

انسان اپنے اوپر ذمہ داری رکھتا ہے اس اصل میں کویٔ بحث نہیں ہے لیکن جس نکتہ کی طرف توّجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ ذمہ داری ہر دور میں سبھی لوگوں پر برابر نہیں ہے بلکہ مختلف وجوہ کی بنا پرہر ایک پر علیحدہ طریقے سے عائدہوتی ہے اور سب پر الگ الگ طرح سے ہے ۔

ایک وجہ جو ایک شخص کے لیٔے ذمہ داری کو دوسرے سے جدا کرتی ہے وہ یہی طاقت و قوّت ہے جو ہر ایک میں الگ الگ پائی جاتی ہے یہ وہی قاعدہ(طاقت کے مطابق ذمہ داری) ہے جسکی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا، چونکہ لوگوں کی طاقت و قوّت، انکی ذہنی استعداد، انکی جسمانی اور روحانی طاقت نیز انکا اجتماعی مقام وغیرہ ایک جیسا نہیں ہے لہٰذا ان افراد کی ذمہ داری بھی ایک جیسی نہیں ہے ،قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : ''لا یکلّف اللہ نفساً الاّ وسعھا ''(١) یعنی خدا کسی کو قدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک کام جو صدر یا وزیر اعظم اپنے منصب و مقام کے سبب انجام دے سکتا ہے وہ ایک معمولی عہدہ پر رہنے والا انجام نہیں دے سکتا اسی اعتبار سے ان لوگوں کی ذمہ داری بھی جدا جدا ہے اور سب کی ذ مہ داری ایک جیسی نہیں ہو سکتی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next