دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


پہلے زمانے میں یونانی کلچر میں ''سوفسٹ'' نام سے گروہ پیدا ہوا تھا چند دنوں تک تو ان کا نام و نشان رہا ؛لیکن بہت جلد ہی ختم ہو گئے ۔پہلی اور دوسری صدی عیسوی میں ایک مرتبہ پہر شک پرستی کا طوفان ''پیرن ''اور اس کے چاہنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوا ؛ اور وہ بھی بہت جلدی ختم ہو گیا ؛اس کے بعد شک پرستی کا تیسرا دور ''رنسانس'' کے بعد شروع ہوا ؛اس کا اثرپہلے کی بہ نسبت زیادہ رہا ؛لیکن اتنا بھی نہیں کہ دنیا کے تمام اسکولوں،یونیورسٹیوں اور ثقافتی جگہوں پرچھا جائے مگر آخر کے دس سالوں میں شک پرستی کی ایک نئی موج اٹھی ہے جس کی وسعت و شدت گذشتہ موجوں سے بہت زیادہ ہے وہ اس طرح کہ اس نے چند جگہوں کو چھوڑ کر دنیا کے تمام علمی اورتمدّنی مراکز کو خاص طور سے اسکولوں اور یو نیورسٹیوں کو پریشانی اور درد سر میں مبتلا کر دیا ہے؛ تمام طرح کے شکی مکاتب فکر اور فلسفے بہت زیادہ رواج پا گئے ہیں اگر چہ ممکن ہے کہ ظاہری طور پر وہ شکاکیت کا نام نہ رکھتے ہوں ،لیکن ان کے مطالب شک پرستی کے عناصر سے خالی نہیں ہیں ۔اور دنیا کا ثقافتی ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں یقین اور حقیقت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کو برا اور ناسمجھ سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی کو بے عزّت کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ یقین پرست اور ڈگما تیزم کا حامی ہے، آج کل یقین پرست ہوناایک علمی گالی شمار کیا جاتا ہے؛ اور شک پرستی، نسبیت اورمطلق انگاری کی نفی ، اس طرح سے دنیا کی فکری اور معاشرتی فضاوئں پر چھا گئی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں یقینی طور پر اعتقاد رکھتا ہے اور دعوے سے کہتا ہے کہ ہم اس چیز پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو پوری طرح سے صحیح سمجھتے ہیں تو اس آدمی کو ناسمجھ ،سادہ لوح اور علم وفہم سے خالی تصور کرتے ہیں اور اس کو جاہل افراد میں شمار کرتے ہیں ۔

ایک مرتبہ میں نے ایک جگہ پر کہا کہ اگر ہم اس زمانے کو نئی جاہلیت زمانہ کے نام سے یاد کریں تویہ اسم با مسّمیٰ ہوگا کیونکہ آج کل قابل فخر بات یہ کہناہے کہ ہم نہیں جانتے ہیں وہ لوگ کہتے ہیں آج ہمیں اس مقام پر پہونچنا چاہئے کہ اچھّی طرح سمجھ لیں کہ تمام چیزیں مشکوک ہیں اور کوئی چیز یقینی وجود نہیں رکھتی ہے یعنی یہ قابل فخر ہے کہ ہم ہر چیز میں شک و جہل کا اقرار کریں یہ ایک نئی جاہلیت ہے جس کا ہم کو آج کل سامنا ہے؛ یہ اس جاہلیت کے مقابل ہے جس کو قرآن کریم نے '' جاہلیت اولیٰ ''کے نام سے یاد کیا ہے (١)

بہر حال ان لو گوں کی نظر میں''ڈگماتیزم اور یقین پرستی'' انسان کی ناسمجھی اور کج فہمی کی دلیل ہے، البتہ ہمارے نظریہ کے مطابق تمام چیزوں میں بھی شک پرستی اور نسبیت کا اعتقادآج جس کا دفاع کیا جا رہا ہے، جہالت اور ناسمجھی کے علاوہ اور کوئی دوسری چیزنہیں ہے، ہم نے قرآن کریم سے سیکھاہے کہ یقین اور یقینی چیزوں کو حاصل کرو اور اس کو اختیار کرو اور شک وتردید کے پردوں کو اپنے سے دور کرو۔سورہ بقرہ کے شروع ہی میں اس جانب اشارہ ہوا ہے ''و باالآخرة ھم یوقنون'' (٢)یعنی مومنین وہ ہیں جو آخرت پر یقین رکھتے ہوں ؛ قرآن مجید کا دستور یہ ہے کہ جس جگہ وہ کسی کی سرزنش کرتا ہے یا اس کی مذّمت کرتا ہے اور غلط قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرتا ہے تو کہتا ہے: یہ لوگ شک والے ہیں بالکل اس کے خلاف جو کہ آج کی دنیا میں پایا جا رہا ہے کہ اگر کسی کی طرف علمی اعتبار سے نامناسب نسبت دینا ہو تو کہتے ہیں کہ یہ اہل یقین ہے ۔

..............

(١) سورہ احزاب : آیہ ٣٣۔

(١) سورہ بقرہ : آیہ ٤۔

 

پلورالزم تساہل تسامح ،بحران پیدا کرنیوالوں کے ہتھکنڈے

بہر حال ہماری نظر میں شک پرستی اور نسبیت کا اعتقاد انسانی معاشرہ کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت اور آفت ہے کم سے کم ہمارے سماج کے لئے اس بات کا سبب ہے کہ ہماریاعتقادات اورثقافت جن کے لئے ہم نے قربانی پیش کی ہے اور ان کے وجود کے لئے صدیوں ہم نے زحمت برداشت کی ہے تا کہ وہ عالم وجود میں آئیں ، وہ سب ختم ہو جائے ؛اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمگیر شک پرستی کی موج و آفت] جو کہ ایک فاجعہ اور خطرناک بیماری ہے [کے مقابلہ میں کیا کیا جائے؟ ہم ایک اسلامی ملک اور حکومت ہونے کی وجہ سے جس طرح دوسرے شعبوں اقتصاد و صنعت وغیرہ میں مختلف کارنامے انجام دیتے ہیں ان کے علاوہ اس ادبی اورثقافتی میدان میں کون سا کام انجام دیں ؟البتہ ثقافت سے ہماری مرادنئی اصطلاح میں ر قص و سرود نہیں ہے بلکہ دینی اصولاعتقادات اور اقدار ہیں ہماری نظر میں اسلام ایک قطعی اصول اور محکم اقدار کا نام ہے ہمارا وظیفہ اور ذمہ داری یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم انکی حفاظت کریں اس کے بعد دوسروں کو ان کی جانب دعوت دیں نہ یہ کہ سیکو لرازم،لیبرال ازم، پلو رل ازم اور دوسرے کئی ازم اور نظریوں کے مقابلہ میں پیچھے ہٹ جائیں اور ان کے اثرات کو قبول کر لیں ۔آج اس ملّت کے دشمن کوشش کر رہے ہیں کہ مختلف ثقافتی حیلوں کو وسیلہ بنا کرلوگوں خصوصاً جوانوں کے اعتقاد،اعتماد اوریقین ،کو زیر سوال لا کرمتزلزل کردیں اورانھیںحیلوں میں ایک حیلہ ''پلو رالزم''نام کی ایک خطرناک فکر ہے جس کی وہ لوگ ترویج کرتے ہیں؛ اس کی اہمیت کے اعتبار سے ضروری ہے کہ اس کے بارے میں کچھ عرض کروں ۔

پلورالیسٹ کہتے ہیں انسان مختلف عقیدوں اور فکروں کے مجموعہ کا نام ہے اور وہ مختلف راہ و روش رکھتاہے اور ہر عقیدہ اور راہ وروشجو کسی بھی معاشرہ سے متعلق ہواور وہ اس کو پسندکرتا ہو تو وہ محترم ہے ہم کو چاہئے کہ ہم ان کی فکر و نظر کا احترام کریں البتہ دوسروں کو بھی ہماری فکر و نظر کا احترام کرنا چاہئے ۔ہم کو نہ تو کسی کی فکر ونظر سے چھیڑ چھاڑ کرنی چاہئے اورنہ تو اس بات کا انکار کرنا چاہئے کہ دوسروں کی فکریں ہماری فکروں کی جا نشین ہو جائیں کسی شخص کو بھی اپنی فکرکے حوالے سے مطلق تصوّرنہیں کرناچاہئے بلکہ اس بات کو نظر میں رکھنا چاہئے کہ دوسرے لوگ بھی الگ فکرونظرکے مالک ہیں اس پرکوئی دلیل نہیں ہے کہ ہماری فکرو نظر صحیح ہے اور دوسروں کی غلط ہے آپ کس اصول کی بناء پر دوسروں کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں اور فقط اپنی فکر کو صحیح جانتے ہیں؟ اگر آپ مسلمان ہیں اور اسلام کو قبول کرتے ہیں تو دوسرے لوگ بھی ہیں جو مسیحیت ، بودھ ایزم اور دوسرے مذاہب کو قبول کرتے ہیں اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ آپ کا اسلام ان سے افضل و برتر ہے؛ ہم سب کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا بھی اور ان کے عقائد کا بھی احترام کریں اور تعصب و دشمنی نہ رکھیں اور اس بات کی کوشش میں نہ رہیں کہ دوسرے لوگوں کو بھی لازمی طور پر اپنے مذہب اور دین کے اندر داخل کریں ،ہم کو چاہئے کہ ہم دوسروں کے افکار و عقائد سے چشم پوشی کریں اور ان سے اتسامح و تساہل کے ساتھ برتاؤ کریں اور اس بات کا احتمال رکھیں کی شاید دوسرے لوگ بھی حق پر ہوں اور سچ کہتے ہوں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next