دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


(١)سورہ نحل: ١٢٥ ۔

ملنا چاہئے اس کے لئے بھی اس نے مسلمانوں کو چند گروہ میں تقسیم کیا ہے:

(الف)آسمانی اورتوحیدی ادیان کے ماننے والے

بعض ادیان کے ماننے والوں کی بہ نسبت جیسے مسیحی 'یہودی' زر تشت وغیرہ اگر چہ ان دینوں میں تحریف کر دی گئی ہے ؛لیکن انکی اصل و بنیاد صحیح ہے اسلام نے ان کے مقابلہ میں ایک خاص طریقہ اختیار کیا ہے اور ان لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ؛اور انکے جان ومال اور ناموس محترم ہیں ان لوگوں کو اجازت ہے کہ یہ لوگ اسلامی معاشرہ میں اپنے کلیسا اور عبادت خانہ بنا کر عبادت کریں نکاح طلاق اور دوسرے معاملات کو اپنی شریعت اور دین کے مطابق انجام دیں اور مالیات جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے خمس و زکات کی صورت میں رکھا ہے ؛ان کے لئے ان کے عوض میں خاص مالیات رکھا ہے جس کو جزیہ اور مالیات کہتے ہیں ؛اس کے مقابلہ میں اسلام نے ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا حکم دیا ہے اور تمام ضروری اجتماعی خدمات کو ان کے لئے قرار دیا ہے اور یہ لوگ بہت سے حقوق میں مسلمانوں کے برابر ہیں اور مسلمانوں سے کوئی فرق نہیں رکھتے ہیں ؛ہم نے یہ واقعہ سنا ہے کہ اسلام کے بے مثل و بے نظیر رہبر اسلامی عدالت کو پھیلانے والے حضرت علی نے جب یہ سنا کہ ایک غیر مسلم پر ظلم و ستم ہوا ہے تو آپ نے اس کی مذمت کی جس وقت معاویہ کی فوج کے ایک سپاہی نے ایک غیر مسلم عورت کے پیروں سے پا زیب چھین لیا توآپ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا :''اگر کوئی مسلمان شخص اس قضیہ پر افسوس کرتے ہوئے مر جائے تو مناسب ہے اور اس پر کوئی ملامت نہیں ہے ''

(ب)کفاّرمعاہد

غیر مسلموں کافروں کی ایک دوسری جماعت ہے جو دین توحیدی کے قائل نہیں ہیں لیکن وہ اسلامی حکومت سے معاہدہ اور معاملہ رکھتے ہیں ؛اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کے پڑو س حتیّٰ اسلامی معاشرہ کے اندر اور مسلمانوں کے درمیان بھی رہ سکتے ہیں، عرف عام میں ایسے لوگوں کو کفاّر معاہد کہا جاتا ہے اگر چہ ان کے رہنے کے شرائط اور حقوق ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ جیسا معاملہ حکومت اسلامی کے ساتھ ہوتاہے اس کے اعتبار سے فرق رکھتے ہیں ؛لیکن بہر حال اسلام نے غیر مسلموں کے اس گروہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے اور اسلامی حکومت میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہے ۔

(ج)کفاّراہل حرب

غیر مسلموں کا تیسرا گروہ ہے یہ وہ لوگ ہیں جو کہ مشہور قول کی بنا پر کسی طرح بھی سیدھے راستے پر نہیں ہیں اور کسی بھی صلح و معاہدہ کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں؛ یااگر کوئی معاہدہ وغیرہ کرتے ہیں تو اس کو توڑ دیتے ہیں ارشاد خدا وند عالم ہو رہا ہے:

''لا یرقبون فیکم الاّ ولا ذمة''(١)یعنی آپ کے بارے میں نہ تو اپنائیت کو اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی کسی معاہدہ کی رعایت کرتے ہیں

اسلام اس گروہ کے بارے میں کہتا ہیک کہ اگر یہ کسی بھی طرح بات چیت اور مناظرہ کے لئے حاضر نہیں ہیں اور کسی بھی معاہدہ اور اتفاق پر راضی نہیں ہیں تو ان سے جنگ کرو اور ان کو زبر دستی مجبور کرو کہ وہ تمھارے تابع ہو جائیں؛ لیکن اس مقام پر بھی اسلام یہ نہیں کہتا کہ ان کو مار ڈالو اور ان کی نسل کو ختم کر ڈالو بلکہ جنگ اس وقت تک ہو کہ یہ لوگ قبول کر لیں یا سیدھے راستے پر آجائیں اور فتنہ پھیلانے سے باز آجائیں ۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام غیر مسلموں سے رابطہ کے متعلق پہلے تو ان کو بحث و مناظرہ کی دعوت دیتا ہے تا کہ اس منطقی اور استدلالی طریقے سے حقیقت کو سمجھ لیں اور معلوم ہو جائے کہ حق کس کے ساتھ ہے، اور دوسرے مرحلہ میں بھی اگر وہ لوگ حق کو قبول نہیں کرنا چاہتے تو بھی فردی یااجتماعی صورت میں ان سے جنگ و جدال نہیں کرتا بلکہ صلح و صفائی کے ساتھ رہنے کی دعوت دیتا ہے ۔

..............

(١) سورہ توبہ :آیہ ٨۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19