دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


امور اعتباری میں اصلاًاس طرح کے جملوں کو جیسے بہتر ہے یا بدتر ہے اچھا یا برا ہے صحیح یا غلط ہے یا اس سے ملتے جلتے جملوں کو استعمال نہیں کیا جاتا ؛ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان جیسے جملوں کو استعمال کریں تو ہم کو کہنا ہوگا کہ سب ہی صحیح، اچھے اور بہتر ہیں خراب ،غلط اور برے کایہاں وجود ہی نہیں ہے ۔ اگر ایک شخص صورتی رنگ کو پسند کرتا ہے اور دوسرا ہرے رنگ کو تو اب کوئی بھی آدمی ایک دوسرے کو غلط نہیں کہہ سکتا ہے اور برے ،غلط یا باطل جیسے الفاظ کو استعمال نہیں کر سکتا ہے؛ بلکہ کہنا چاہئے کہ صورتی رنگ بھی اچھا ہے اور سبز رنگ بھی بہتر ہے خلاصہ یہ کہ جو اموراور مسائل اعتباری ہیں ان کا جواب ایک نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ ان کے جواب ایک سے زیادہ ہوں ۔

پلورالسٹ والے دعوی ٰ کرتے ہیں کہ دین ثقافت اور افکار واقداراعتباری امور میں سے ہیں اور ذوق وسلیقہ اور قرار داد واعتبار کے تابع ہیں؛ جس طرح اس سوال کے جواب میں کہ( کون سا رنگ اچھا ہے؟ ) ایک جواب نہیں ہے اور خاص طور سے ایسے سوال بے معنی اور نا مناسب ہیں لہذٰا اس سوال کے جواب میں کہ ''کون سا دین اور کلچر اور مکتب فکربہتر اور صحیح ہے؟) ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی جواب کو اختیار کیا جائے ؛ایک لحاظ سے ایسا سوال ہی کرنا بے کار ہے اگر کوئی شخص اسلام کو پسند کرتا ہے اس کے لئے وہ اچھا ہے اگر کوئی مسیحیت کو پسند کرتا ہے تو اس کے لئے وہ بہتر ہے اگر کوئی یہ کہے کہ خدا ایک ہے تو ٹھیک ہے اگر کسی نے یہ کہا کہ خدا تین ہیں تو یہ بھی صحیح ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اگر کسی نے کہا خدا ہے اور کسی نے کہا کہ خدا نہیں ہے تو دونوں کی بات صحیح ہے اور دونوں حق پر ہیں ،میں چاہتا ہوں کہ بیت المقدس یعنی قبلہ اوّل کی طرف رخ کر کے نماز پڑھوں اور آپ چاہتے ہیں کہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں تو اس میں کوئی بھی مشکل نہیں ہے ،دونوں صحیح ہے ؛جس طرح آپ اس کھانے کو پسند کرتے ہیں ،اور میں اس کھانے کو پسند کرتا ہوں ؛ایسا ہی دین کا بھی معاملہ ہے میں اسلام کو پسند کرتا ہوں ،آپ بودھ کو پسند کرتے ہیں اورہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں رکھتا دونوں میں کوئی بھی دشمنی اور جنگ نہیں ہے بلکہ دونوں ہی بہتر اور اچھے ہیں ۔ مثلاً کامیابی اور جیت کے موقع پر مغربی کلچر میں انگلیوں کو ایک خاص شکل میں گھمایا جاتا ہے یعنی]v[ بنایا جاتا ہے جب کہ اس حرکت کو ایرانی کلچر مین ایک بے عزتی اور گالی شمار کیا جاتا ہے لیکن اس حرکت پر ہم مغربی ممالک کے لوگون کو غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ ایک قرار دادی اور اعتباری چیز ہے بالکل ایسے ہی دینی امور بھی ہیں ۔

جس مسئلہ کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے اور پلورالیسٹدینی پلورالزم کی تائید کے لئے اسی طرف اشار ہ کرتے ہیں اصطلاح میں اس کو''افکار واقدار میں نسبیت ''کے نام سے یاد کیا جاتا ہے افکارو اقدار میں نسبیت کی بحث اس کا خلاصہ اور نتیجہ یہی ہے کہ اچھا اور برا ہونا نیز فائدہ مند مسائل اور اس کے علاوہ اخلاقی اقدارکی باتیں سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں مختلف لوگوں کی نسبت ممکن ہے تفاوت واختلاف ہو، جس طرح کھانے اور رنگ کے متعلق الگ الگ پسندہوتی ہے اورمختلف افراد کی نسبت پسندوںمیں فرق ہوتا ہے اچھائی اور برائی اور اس کے علاوہ افکار واقداربھی اسی طرح سے ہیں ؛جس طرح کھانے اور رنگ کے بارے میں کسی ایک کو مطلق طور پر اچھا نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ ممکن ہے ایک رنگ یا غذا ایک آدمی کے نزدیک پسندیدہ ہے اور وہی چیزدوسرے کے نزدیک بری اور ناپسند ہے اسی طرح افکار و اقدار اور اخلاقی مسائل کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ہر انسان اور سماج کی نسبت مختلف ہوتی ہے اوربدلتی رہتی ہے ۔

یہاں تک اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ صاحبان پلورالسٹوں نے پہلے تویہ کہا :

(١) چونکہ اقتصاد اور سیاست میں پلورالزم اور کثرت گرائی صحیح اور فائدہ مندچیز ہے لہذا دینی امور میں بھی ہم اس بات کو قبول کریں کہ کثرت گرائی ایک اچھی اور مفید چیز ہے ،

اس بات کا جواب ہم نے یہ دیا کہ دینی مسائل بھی فیزیک اور حساب جیسے ہیںجو کہ ایک جواب رکھتے ہیں اس میں تکثر اورکثرت گرائی صحیح نہیں ہے ۔ (٢)اس کے بعد پلورالسٹوں نے کہا کہ افکار واقدار میں نسبیت پائی جاتی ہے اور انھوں نے بعض اخلاقی و اجتماعی آداب و رسوم کو پیش کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ عام فکری مسائل میں بھی نسبیت پائی جاتی ہے تاکہ بعد میں نتیجہ پیش کر سکیں کہ دین کے اموربھی نسبی ہیں ۔

پلورالزم کو ثابت کرنے کی تیسری کوشش

پلورالسٹ اس ذیل میں پچھلی باتوں سے بھی آگے بڑھ کر اس بات کا دعویٰ کر بیٹھے کہ حقیقت اور اصل میں تمام معارف اور مسائل چاہے وہ جس شعبہ کے ہوں ہر جگہ نسبیت پائی جاتی ہے اوراصولی طور پر کوئی شناخت اور معرفت بغیر نسبیت کے نہیں ہو سکتی ہیں بس فرق اتنا ہے کہ بعض جگہوں پر یہ نسبیت بالکل واضح اور روشن ہے اور سب لوگ اس کو جانتے ہیں لہذٰا آسانی سے قبول کر لیتے ہیں اور بعض جگہوں پر یہ نسبیت پوری طرح سے واضح نہیں رہتی ہے اور عام لوگوں کا نظریہ ایسی جگہوں پر یہ ہوتاہے کہ مطلق اورثابت معرفت کو حاصل کر لیا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے یہ وہی چیزیں ہیں جن کی طرف ہم نے شروع میں اشارہ کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ معرفت و شناخت میں نسبیت کا قول اصل میں وہی شک پرستی ہے جو کہ آخری دس سالوں سے پہلے اور حضرت عیسیٰ سے پہلے اور ان کے بعدبھی دو تین بار فلسفیوں اور دانشوروں کے یہاں پائی گئی تھی ،لیکن یہ نظریہ اس وسعت سے نہیں پھیلا تھا اور اتناموثرنہیں ہواتھا لیکن ادھر آخری دس سالوں میں بہت زیادہ پھیل گیا ہے اس نے آج دنیاکی اکثر فکری اور ثقافتی مراکز کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ،ایک عالم کو آج فخر اس بات پر ہے کہ وہ کہے میں اس بات کو نہیں جانتا اور اس چیز میں شک رکھتا ہوں ؛اگر کوئی شخص علم و یقین کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کے دعوے کو نادانی کی علامت سمجھا جا تا ہے ۔

بہر حال اگر تمام معارف و شناخت نے نسبیت کے رنگ کو اختیار کر لیا تودین اور دینی معرفت بھی محفوظ نہیں رہ پائے گی اور وہ بھی نسبی اور تغیر پذیر بن جائے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا اور ہم کہہ سکتے ہیں مثلاً سماج ]الف [کے نزدیک اور ان کے نظریہ کے مطابق مسیحی دین صحیح اور بہتر ہے اور وہ حق پر ہے، سماج ] ب[ کے نزدیک اسلام دین اچھا اور حق پر ہے، بلکہ ممکن ہے کہ ایک ہی سماج کے نزدیک ایک وقت میں ایک دین بہتر اور حق پر ہو اور دوسرے زمانے میں دوسرا دین بہتر اور حق پر ہو اور معلوم نہیں کہ حقیقت اور سچاّئی کیا ہے؟ اصلاًحقیقت بھی ایک نسبی مسئلہ ہے اس سماج اور اس زمان کی نسبت حقیقت ایک چیز ہے اور دوسرے زمانے اورسماج کی نسبت دوسری چیز ہے ۔

مسلمان پلورالسٹ ( بہتر ہے کہ ہم ان کو وہ پلورالیسٹ کہیں جو کہ ظاہری طور پر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں )دینی پلورالزم کی تائید میں کبھی کبھی قرآنی آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہیں اور کبھی مولوی،حافظ اور عطاّر وغیرہ کے اشعار پیش کرتے ہیں جن کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ،بت خانہ، مسجد،کلیسا یہ سب ظاہری طور پر اگر چہ الگ الگ ہیں لیکن سب کے سب ایک ہی خدا کی تلاش اور خدا پرستی کی ایک ہی حقیقت تک پہونچاتے ہیں جیسے یہ شعر بہت ہی شور و غل کے ساتھ پیش کیا جا تا ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next