دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


جیسا کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے یہ فکر حقیقت میں وہ ہتھیار ہے جس کو دنیا کی استعماری طاقتیں اسلامی کلچر کو روکنے خاص طور پر اسلامی انقلاب کے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کے لئے استعمال کرتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ مغرب کے مادی اور الحادی کلچر کو رواج دینے کے لئے بھی یہ کوششیں ہیں؛آج ہم خود اس بات کے شاہد ہیں کہ بعض نشریات ،اور تقریروں، جلسوں میں اسی فکر کو رواج دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور اس کے نفوذو اثر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ بعض ایسے افراد جن کے متعلق گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ان کو بھی اس فکر سے متاثر ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔

جوانوں سے متعلق ہماری اہم ذمہ داری

حضرت امام خمینی کی زندگی میں آپ کی بزرگ شخصیت کا لوگو ں پر اتنا اثر تھا کہ وہ لوگ آپ سے والہانہ محبت کرتے تھے بے چون و چرا آپ کی باتوں کو قبول کرتے تھے اور آپ کے نظریہ اور رفتار و گفتار کو مانتے تھے تمام ذمہ دار افراد کے درمیان حتیّٰ عوام الناس کے درمیان آپ کی بات حرف آخر رکھتی تھی؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صرف آپ ہی کی شخصیت ایسی تھی ۔یہ حقیقت ہے کہ ایسی چیزیں ہمیشہ اور ہر نسل میں باقی نہیں رہتی ہیں لہٰذا ہم کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ اگروہ راہ اور فکر حقیقت میں صحیح اور درست تھی تو ہم کومنطق اور دلیلوں کے ذریعہ اس کی حمایت کرنی چاہئے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہئے اور اس کو پھیلانا چاہئے ؛خاص طور پر آئندہ نسلوں کے لئے ہمارا صرف یہ کہنا (امام خمینینے یہ کہا اور امام خمینینے یہ کیا) کافی نہیں ہے،

وہ عشق و جذبہ جو کہ انقلاب کے شروع اور پہلی نسل میں پایا جاتا تھا اور ان کے اندر جو شہادت کا جذبہ تھا ،جس کو میدان جنگ میں دیکھتے تھے ظاہرہے آنے والی نسلوں (یا ان لوگوں میں جنھوں نے امام خمینیکے ملکوتی چہرے کو نہیں دیکھا ہے یا جو لوگ ہر ہفتے یا روز انہ امام خمینیکے حکیمانہ جملوں کو نہیں سنتے )کے اندر نہیں پایا جا سکتا لہذا ہم کو چاہئے کہ واضح دلیلوں اور منطقی باتوں سے انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

حقیقت میں اگر ہم ان نوجوانوں کی جگہ پر ہوں جو کہ ابھی جلدی ہی رشد و کمال پر پہونچے ہیں اور وہ مختلف نظریات اورمکاتب فکر سے روبرو ہوں تو ہم دیکھیں گے کہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں ۔ ان جوانوں کے لئے جو چیز قابل سوال ہے وہ یہ کہ اتنے نظریات جو کہ اس دنیا میں ضد و نقیض کی صورت میں پائے جاتے ہیں کیا دلیل پائی جاتی ہے کہ امام خمینی کا نظریہ ہی صحیح اور درست ہو؟ کون سی دلیل پائی جاتی ہے کہ اسلام ہی سب سے اچھا دین ہے اور اس کا راستہ سب سے اچھا راستہ ہے کیا دنیا میںمسیحی دین اور دوسرے دین کے ماننے والے کثیر تعداد میں نہیں پائے جاتے ہیں آپ کو کہاں سے معلوم ہوا کہ انکا عقیدہ اسلام اور امام خمینیسے بہتر نہیں ہے ،میں کیوں اسلام، انقلاب اور امام خمینیکو قبول کروں؟یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات اور مسائل ہیںجو کہ ہمارے جوانوں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں اور انکے ذہنوں کو جھنجوڑ تے رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو واضح طریقہ سے ان باتوں کو زبان پر لاتے ہیں اور ان کا اظہار کرتے ہیں اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مناسب ذہنی میدان اور ماحول'' پلورا لیزم ''کی ترویج کے لئے دین وثقافت کے حدود میں میں پا یا جا رہا ہے ۔

میں خود دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسے لوگوں سے ملا ہوں جو کہ مسیحی تھے لیکن کہتے تھے کہ اسلام بھی اچھا دین ہے لیکن جب میں نے ان سے سوال کیاکہ پھر کیوں نہیںمسلمان ہو جاتے تو جواب میں کہتے ہیں چونکہ مسیحیت بھی اچھا دین ہے ۔حتیّٰ اس سے بھی بڑھ کر آج پاپ (مسیحیوں کا رہنما)بھی اعتراف کرتا ہے کہ اسلام ترقی یافتہ اور اچھا دین ہے لیکن کبھی یہ نہیں کہتا کہ مسیحیت برا دین ہے یا اسلام مسیحیت سے بہتر ہے جب مسیحیت کا راہبر یہ اعلان کرتا ہے کہ اسلام بہت سی خوبیوں کا دین ہے تویہ خودبخوداس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دو اچھے دین ہیں ایک اسلام اور ایک مسیحیت۔ اگر آپ بودھ مذہب کے رہبر(بودھ ایسا مذہب ہے جسکے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں)سے ملاقات کریں گے تو ممکن ہے وہ بھی کہے کہ بودھ اچھا دین ہے اسلام بھی اچھا مذہب ہے یہ وہی دینی پلورالیزم ہے یعنی ہم ایک اچھا اور برحق دین نہیںرکھتے بلکہ حق پر کئی دین ہیں کسی کو بلاوجہ یہ ضدنہیں کرنی چاہئے کہ جنت میںجانے اور سعاد ت مند بننے کے لئے مسلمان ہونا ضروری اور شرط ہے بلکہ مسیحی ،زرتشتی،بودھ اور دوسرے لوگ بھی جنت میںجاسکتے ہیں اور سعا د تمند بن سکتے ہیں اسی طرح ایک دین کے اندر بھی مختلف مکاتب فکر کوبھی ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دینی چاہئے ؛بلکہ سب کے سب اچھے اور حق پر ہیںجیسے اسلام مذہب میں سنی اورشیعہ ہیں یامسیحیت میں ''کیتھولک'' ''پروتٹیسٹان اور ''ارتڈوکس'' لہذا ایک دوسرے کے باطل یا غلط ہونے کانظریہ نہیںرکھنا چاہئے ۔

پلورالیسٹ کیا کہتے ہیں

پلورالیسٹ دینی پلورالزم کی تائید کے لئے پلو رالیزم کے دوسرے مظاہر کے ذریعہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دینی پلورالیزم بھی صحیح ہے مثلاً کہتے ہیں آج د ونیاکے مملک مختلف حکومتی روش اور سسٹم کے تحت چل رہے ہیں؛بعض ترقی یافتہ ممالک مثلاًانگلینڈ، جاپان وغیرہ میں با دشاہی حکومت پائی جاتی ہے اور دوسرے کئی ملکوں میں جمہوری حکومت پائی جاتی ہے؛ جمہوری حکومتوں میں بھی بعض جگہوں پر ریاستی اور کہیں پر پارلیمانی طریقہ حکومت پایا جاتا ہے ۔ جب سیاست کے میدان میں حکومت کے مختلف قسم کے سسٹم سے متعلق بحث ہوتی ہے اور اس سوال کے جواب میں کہ (ان تمام سسٹم میں کون سا سسٹم اچھا ہے؟ ) وہ لوگ کوئی آخری اور فیصلہ کن جواب نہیں دیتے ؛بلکہ کہتے ہیں کہ ان تمام سسٹم میں بعض اچھائیاں اور خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں؛اور بعض حد بندیاں اور کمیاں پائی جاتی ہے اور کسی سسٹم کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ برا ہے وہ تمام سسٹم اچھے ہیں یہ سیاسی پلو رالزم یعنی سیاسی حکومت کے انتخاب میں لازم نہیں ہے کہ ہم کہیں یہ طریقہ حکومت اچھا اور صحیح ہے اور بقیہ حکومت کے سسٹم اور طریقے غلط اور باطل ہیں اسی طرح ایک حکومت یا کابینہ کے بنانے اور تشکیل دینے میں کئی الگ الگ پارٹیاں ہوتی ہیں یہ بھی ایک سیاسی پلورالزم کا نمونہ ہے ۔وہ مختلف پارٹیاں جو کہ ایک ملک میں پائی جاتی ہیں اور الگ الگ نظریات اور فکریں رکھتی ہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کی مخالف ہوتی ہیں ان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف ایک پارٹی صحیح اور باقی دوسری غلط ہیں اور ان کو چھوڑ دیا جائے ۔اصولی طور پر اگر آج دنیا میں تمام لوگ متفقہ طور پر صرف ایک پارٹی کے طرف دار ہوں تویہ لوگ اسکو عقب ماندگی کی نشانی اور اس پارٹی کی تنزّلی کا سبب سمجھتے ہیںیہ لوگ اس بات کے معتقد ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اور متمدن معاشرہ ضروری طور پر مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہوں اورلوگ الگ الگ گروہ کے طرف دار ہوتے ہیں بنیادی طور پر مختلف نظریوں کا پارٹیوں میں ہونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ آپس میں رقابت پیدا ہو،و پارٹی حکومت میں نہیں ہے وہ حکومتی پارٹی کے کارناموں کو دیکھے اور اس پر نظر رکھے نیز ہر پارٹی ایک دوسرے کی کمیوں اور کمزوریوں پر نظر رکھے اس طرح ہر پارٹی اپنے کاموں پر نظر رکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کوئی کمی اور غلطی نہ ہونے پائے اگر غلطیاں اور کمزوریاں ہیں تو اس کا ازالہ کیا جائے نیز اس بات کی ہر پارٹی کوشش کرتی ہے کہ سبھی کام کو اچھے طریقے سے انجام دیا جائے تاکہ لوگوں کے ووٹوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں؛ انھیں سب وجہوں سے ذمہ دار اور سیاسی افراد اپنے ملکوں میں ترقی دیتے ہیں کہ نتیجہ میں جس کا فائدہ اس معاشرہ کے تمام عوام کو پہونچتا ہے ۔ اس بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی پلورالزم اور چند پارٹیوں کا ہونا ایک پسندیدہ اور فائدہ مند بات ہے اور وہ سیاسی سسٹم اور طریقہ کارجو ایک ہی پارٹی میں محدود ہوسیاسی پلورالزم کے مقابلہ میں نامناسب اور بیکار ہے ۔

اسی طرح اقتصادی میدان میں بھی یہ بات بہت حد تک واضح ہے کہ مختلف اور متعدد نظریے اور کئی اقتصادی طاقتوں اور ذرائع کا ہونا ہی اچھا اور قابل قبول ہے اور ایک محور کا اقتصاد بہت زیادہ نقصاندہ اور عیب کا باعث ہے اور یہ قابل دفاع بھی نہیں ہے ۔ جس میدان میں کئی اقتصادی محور موجود ہونگے وہاں آپس میں رقابت پیدا ہو گی اور رقابت کے نتیجہ میں اچھی چیزیں بہتر صورت میں بہت کم قیمت پر استعمال کرنے والوں تک پہونچیں جائیں گی اور اقتصادی مارکیٹ میں اچھی طرح وسعت اور ترقی بھی اسی رقابت کے ذریعہ ہوتی ہے جبکہ ایک محوری اقتصاد میں محدودیت پیدا ہو جاتی ہے اور رقابت نہ ہونے کی وجہ سے عام طور پر چیزوں کی کیفیت اور بناوٹ اچھی بھی نہیں ہوتی اور قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس میں ترقی اور وسعت چند محوری اقتصاد کی بہ نسبت بہت کم ہوتی ہے لہٰذا ان سب باتوں کی وجہ سے اقتصادی پلورالزم قابل قبول اور فائدہ مند ہے ۔

پلورالیسٹ اس طرح کی باتیں ذکر کر کے نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس طرح پلورالزم اور کثرت خواہی مختلف جگہوں جیسے سیاست، اقتصاد اور دوسری چیزوں میں اچھی چیز ہے اسی طرح دین اور کلچر میں بھی پلورالزم اور کثرت گرائی پائی جانی چاہئے؛ تاکہ اس طرح سے تمام اد یان کے معاشرہ اور سماج کے اندر پوری طرح سے فراہم ہو نا چاہئے اور اعتقادی نظریہ سے بھی اس بات کا یقین رکھیں کہ مختلف ادیان میں کوئی برتری نہیں پائی جاتی ہے اوران میں کسی ایک دین کو قبول کرنے کی حیثیت بقیہ تمام ادیان قبول کرنے کے برابر ہے لہٰذا دینوں میں حق و باطل کا قائل ہونا اور ان کو اچھے برے میں تقسیم کرنا یا ان کوا چھے اور برے عنوان سے یاد کرنا یہ سب پوری طرح بے بنیاد اور بے فائدہ ہے اور عیسائی، مسلمان ،شیعہ اورسنی،کیتھولیکاور پروٹیسٹ خلاصہ یہ کہ تمام ادیان نیز فرق و مذاہب حقیقت تک پہونچنے کے راستے اور منزل مقصود اور ساحل نجات تک پہونچانے والے صراط مستقیم ہیں ،اور ان میں سے کسی ایک پر تعصب کرنا بے عقلی اور غیر منطقی ہونے کی دلیل ہے عقلمند انسان جس طرح اقتصادی اور سیاسی پلورالزم کو قبول کرتا اسی طرح وہ اس کو دین کے بارے میں بھی قبول کرتا ہے اور دین میں کثرت کا ہونا پوری طرح سے فطری اعتبار سے قابل قبول اور معقول ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next