دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


بہر حال آج کل یہ فکر ہمارے سماج میں مختلف طریقوں سے ترویج کی جارہی ہے ،جیساکہ پہلے اشارہ کیا جاچکاہے واقعاً ہمارے جوانوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حقیقت میں جس طرح ہم لوگ اقتصاداورسیاست کے میدان میں کثرت کو قبول کرتے ہیں مثلاًاقتصاد کے میدان میں اہل اقتصاد صادرات کو وسیع یا واردات کو کم کرنے اور مکمل طرح سے رشد و وسعت میں کسی ایک ملک سے متعلق ایک خاص نظریہ نہیں رکھتے ہیں ان کے درمیان اختلاف کا ہونا فطری چیز ہے یہ ضروری نہیں کہ سب کے سب ایک نظریہ پر پہونچیں ؛پھر اب کیا مشکل ہے کہ دین اور ثقافت کے بارے میں بھی اسی چیز(پلورالزم اورکثرت گرائی) کو قبول کریں ؟سچ مچ اس بات پر کیوں ضد اور اصرار ہے کہ میں لازمی طور پر اسلام ہی کو نہ کہ مسیحیت کو قبول کروں ؟ حقیقت میں کیا یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دین کا پابنداور خدا کے وجودکا اعتقاد رکھوں؟ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں یا خدا کیوجود میں شک و شبہ رکھتے ہیں ،یہ بھی ایک عقیدہ دوسرے عقیدوں کے درمیان ہے اوردوسرے عقیدوں جیسا ہی ہے میں کیوں نہ اس عقیدے کو قبول کروں ؟

اس لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پوری طرح سے بہت ہی اہم ہے اور ایک مضمون یا کتاب سے زیادہ مطالب کا حامل ہے یہ مسئلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ ہمآمادہ ہو کر منطقی اور استدلالی جواب کے ساتھ نوجوان نسلوں کے سوالات کے جواب دینے کے لئے حاضر ہوں اور اس شبہ کو حل کریں ۔

 

پلورالسٹ کے پہلے بیا ن پرتنقید

مذکورہ بیان جو کہ پلورالزم کہ تائید کرتا ہے سب سے پہلے اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ منطقی لحا ظ سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر ہم اقتصاد و سیاست میں کثرت گرائی کو قبول کرتے ہیں تو دین اورکلچر میں بھی اس کو قبول کریں ؛پلورالزم کے مذکورہ بیان میں جو کچھ کہا گیا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ''چونکہ سیاست و اقتصاد اور دوسرے امور میں کثرت گرائی فائدہ مند ہے اور لوگ اس کو پسند کرتے ہیں؛لہٰذا دین و ثقافت کے مطالب میں بھی کثرت گرائی مفید و مطلوب ہے ''

ہماری اصلی بحث اسی میں ہے یہ مطلب صرف ایک دعویٰ ہے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے یہ مطلب ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی کہے ''چونکہ فٹ بال کے کھیل میں گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید و مطلوب ہے لہٰذا والی بال کے کھیل میں بھی گیارہ کھلاڑیوں کا ہونا مفید ومطلوب ہے ''

حقیقت میں جس طرح یہ دوسرا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے اور تعجب انگیز ہے اسی طرح پہلا دعویٰ بھی ہے ۔ اس کے بارے میں تھوڑی وضاحت اس طرح سے ملاحظہ ہویہ صحیح ہے کہ اقتصادی، سیاسی اور اس جیسے دوسرے بعض ایسے مسائل ہیں کہ ان کا جواب ایک نہیں ہے ان کے جواب میں کثرت اور زیادتی ممکن ہے بلکہ کبھی کبھی صحیح اور پسندیدہ بھی ہے لیکن بعض دوسرے مسائل ایسے بھی ہیںجن کا جواب صرف اور صرف ایک ہی ہے، ان کا جواب ایک سے زیادہ قابل قبول اور قابل تصّور نہیں ہے جیسے ریاضی،فزکس اور ہندسہ وغیرہ ،مثلاً حساب میں ٢ضرب ٢ کا جواب فقط ٤ ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا جواب صحیح نہیں ہے یا ہندسہ میں ٣ زاوئیے جو کہ مثلث اعتبار سے برابر ہوں جو کہ دلیل سے ثابت ہوتے ہیں اس کا جواب صرف ١٨٠ درجہ ہی ہوگا اس کے علاوہ دوسرا کوئی جواب نہیں ہے یا ایک مسافت کا حساب لگایا جائے جو کہ ایک متحرک معین زمانہ میں مشخص رفتار کے ساتھ طے کرتاہو تو اس کا جواب ایک ہی ہوگا کہ جس d=v.t فارمولے کے ذریعہ حساب کیا جائے گا ،کیا کوئی یہاں پر یہ کہہ سکتا ہے کہ اقتصادی اور سیاسی مسائل میں جس طرح مختلف نظرئیے پائے جاتے ہیں اور اس کا ایک جواب نہیں پایا جاتا اسی طرح دو ضرب دو کے بارے میں بھی ہے اور تمام علم ریاضی کے جاننے والے دوسروں سے علیحدہ جواب دے سکتے ہیں اور ان میں یہ بھی احتمال ہو کہ کوئی صحیح اور کوئی غلط ہو ؟ ہاں اس نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے کہ ممکن ہے ریاضی اور اس جیسے مسائل کے جواب دو یا اس سے زیادہ راہ حل رکھتے ہوں؛ مگرآخر میں سارے مختلف راہ حل ''ایک جواب تک پہونچیں گے ''اور چند راہ حل کا ہونا کئی صحیح جواب کے ہونے سے الگ اور جدا چیزہے ۔

لہذٰا ممکن ہے کہ انسانی وجودات اور معارف میں ہمارے سامنے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ ہوں اور ایسے مسائل بھی ہوں؛ جن کے جواب فقط ایک ہوں اور ہمارا اصلی سوال ان لوگوں سے جو پلورالزم دینی کے قائل ہیں یہ ہے کہ آپ کو کہاں سے معلوم کہ دین ان مسائل سے ہے جن کے جواب ایک سے زیادہ نہیں ہے ؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ دین اقتصاد اور سیاست کی طرح ہے جس کے کئی جواب ہیں اور اس کے اندر کثرت فائدہ مند اور مطلوب ہے تو ہم بھی اس کے جواب میں کہیں گے کہ ایسا نہیں ہے، دین کے مسائل فیزیکس اور ریاضی جیسے ہیں جن کے جواب ایک سے زیادہ صحیح نہیں ہیں،ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ''خدا ہے یا نہیں؟ '' کا سوال دو ضرب دو یعنی دو دو چارمسئلہ جیسا ہے کہ صرف اور صرف اس کے جواب میں ایک ہی بات صحیح ہے ۔

پلورالسٹوں کی دوسری دلیل

یہاں پر جو لوگ دینی پلورالزم اورکژت گرائی کے قائل ہیں وہ اپنے مدّعا کو ثابت کرنے کے لئے دوسری دلیل کا سہارا لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انسان سے متعلق جوامورہیں وہ دو طرح کے ہیں کچھ امور حقیقی اور واقعی ہیں جبکہ کچھ قرار دادی اور اعتباری ہیں، واقعی اور حقیقی امور ایسے ہی ہیں جیسا آپ کہتے ہیں یعنی ان کے جواب صرف ایک ہی ہیں یہ ایسی چیزیں ہیں جو کہ حس اور تجربہ سے ثابت ہیں؛ لیکن جو امور قرار دادی اور اعتباری ہیں جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے وہ امور انسان کے ذوق اور سلیقے اور قرار داد واعتبار کے علاوہ کوئی حقیقت اور واقعیت نہیں رکھتے اور اسی وجہ سے افراد اور معاشروں کے ذوق اور سلیقہ اور قرار دادو اعتبار کے اختلاف کے سبب بدلتے رہتے ہیں؛ اس کے بر خلاف واقعی امور ہیں مثلاً ایک خاص کمرے کی مساحت انسان کے معاملہ اور ذوق وسلیقے سے معین نہیں ہو تی؛بلکہ حقیقی طور پر اس کمرہ کی پیمائش اتنی ہی ہوگی جتنے میں موزائیک پتھر لگے ہوئے ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next