دقیق شبھات، ٹھوس جوابات

آیةاللہ مصباح یزدی


خدا وند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے محترم اساتید کے درمیان حاضر ہونے کی تو فیق عطافرمائی امید کرتا ہوں کہ یہ نیک اور مبارک قدم ہوگا ان عظیم اور سنگین ذمہ داریوں کو انجام دینے کی جو ذمہ داریاں اس خاص دور میں ہمارے اوپر عائدہیں سب سے پہلے میں اس بات کی اجازت چاہتا ہوں کہ ایک مختصر مقدّمہ جو اس ذمہ داری سے متعلّق ہے اسکو بیان کروں اسکے بعد اللہ کے فضل وکرم سے آئندہ جلسوں کے جو موضوعات دوستوں کے سامنے ہیں ان کے بارے میں تفصیل سے بحث کروں گا .

مذہب اسلام مین ایک دستور(قاعدہ )ہے ''طاقت کے مطابق ذمہ داری'' یعنی خداوندعالم نے جسکو جتنی نعمت عطا کی ہے اور جس قوّت و استعداد کا اسکو مالک بنایا ہے اسی کے مطابق اسکو ذمہ داری عطاکی ہے (انسان کی ذمہ داری)یہ ایک ایسا اہم موضوع ہے جو بہت ہی زیادہ تفصیل چاہتا ہے اس سے پہلے کہ اصل موضوع ''قوت و طاقت کے اعتبار سے ذمہ داری ''کے بارے میں بحث ہو اس سلسلے میں مختصر وضاحت پیش کی جاتی ہے ۔

انسان جواب دہ ہے یا حقوق طلب

اس بات کے علاوہ کہ انسان خودفطری طور پر اس بات کو محسو س کرتاہے کہ وہ جانوروں کی طرح آزادنہیں ہے کہ بغیر ذمہ داری کے جیسے چاہے ویسے زندگی بسر کرے ،مختلف ادیان بھی اس بات پر تاکید کرتے ہیں شاید آپ نے سنا ہوگا مشہور فلسفی ''اما نوئل کانٹ''کہتا ہے کہ دنیا میں دو چیزوں نے مجھکو بیحدمتأثر کیا ہے اور میرے لئے تعجب اور حیرانی کا باعث ہیں ایک آسمان میں ستاروں کا ہونا دوسرے انسان کے اندر اسکی فطرت کی آواز، اور فطرت بہت ہی خوبصورت آواز ہے جو انسان کے اندر موجود ہے بہر حال انسان اپنی اس فطرت اوّلیہ کے باعث کم و بیش اس بات کا احساس کرتا ہے کہ ایک طرح کی ذمہ داری اسکے اوپر ہے البتہ اس فطری احساس کا واضح اور ثابت ہونا یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس کواس وقت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔

انسان فطرتاً جواب دہ اور ذمہ دارہے اس نظریہ کے مقابل ایک دوسرا قدیمی نظریہ جو پایا جاتا ہے اور آخری چند برسوں میں اسے خاص رونق وشہرت ملی ہے وہ یہ کہ انسان کو اپنے حقوق حاصل کرنے اور لینے کے لئے جہان ،طبیعت ،خدااورحکومت سے کوشش کرنی چا ہئیے یہ فکر پرانی ہو چکی ہے کہ انسان ذمہ دار اورمکلّف ہے یہ گذرے ہوئے زمانے کی باتیں ہیں اب وہ زمانہ ختم ہو چکا ہے کہ انسان کو سکھایا جائے کہ وہ بندہ ہے اور خداا اسکا مولا ہے بلکہ اب وہ زمانہ ہے کہ انسان ہی آقامولا ہے آج وہ دور نہیں رہاکہ انسان تکلیف اور ذ مہ داری کے پیچھے دوڑے بلکہ زمانے نے اسکے جن حقوق کو بھلا دیا یا ضا ئع کر دیا ہے ان کے لیٔے کوشش کرے ۔

بہرحال اس دوسرے نظریہ کے برخلاف، جیسا کہ اشارہ کیا گیا ہے عقل ووجدان اور انسانی فطرت گواہ ہیں کہ انسان ذمہ دار ہے اور ذمہ داریاں اسکو گھیر ے ہوے ہیں اور انسان ذمہ داریوں کا جواب د ینے والاہے تمام ادیان بھی اس بات پر اتّفاق رکھتے ہیں، قرآن کریم کی اکثر آیات انسان کے ذمہ دار ہونے کو بتاتی ہیںقرآن مجیدمیں خدا فرماتا ہے : '' فوربّک لنسئلنّھم اجمعین عمّا کانوا یعملون'' (١)تمہارے خدا کی قسم جوکچھ وہ انجام دیتے ہیں اسکے بارے میں سوال کیا جائے گا ''پھر ارشاد ہورہا ہے: '' ولتسئلنّ عماّتعملون '' (٢)یعنی تم جو کچھ بھی انجام دیتے ہو اس کے بارے میں ضرور ضرور سوال ہوگا ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے: ''انّ السمع والبصر و الفو اد کل اولٰیک کان عنہ مسئولا''(٣)یعنی آنکھ کان اور دل سب کے بارے میں سوال ہو گا ۔

..............

(١) سورہ حجر : آیہ ٩٢و ٩٣۔

(٢)سورہ نحل : آیہ ٩٣۔

(٣)سورہ اسرا :آیہ ٣٦



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next