معتزلہ کی نظر میں قرآن کا اعجاز

حسین حیدر زیدی


لیکن افسوس کہ وہ اس وعدہ کو بھول گئے اور تیسری جلد میں شعوبیہ اور ان کا جواب دیتے ہیں ،اس عبارت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاحظ ، قرآن کو اشعار اور اسجاع کے مطابق سمجھتے ہیں ،یعنی وہ قرآن میں مسجع کے قائل ہیں ،لہذا ابوبکر باقلانی نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:

جو بھی قرآن کریم میں سجع و صنع کاقائل ہے اس کو یہ قبول کرلینا چاہئے کہ قرآن میں نظم و تالیف کا کوئی اعجاز نہیں ہے اور خدا اوربشر کے کلام میں کوئی فرق نہیں ہے (٦٩) ۔

جاحظ ، خود قرآن کو معجزہ سمجھتے ہیں اورقرآن کریم کے نظم و تالیف کو معجزہ کی طرح سمجھتے ہیں جس کے مثل کوئی نہیں لاسکتا (٧٠) وہ صرفہ کو بھی قرآن کے سلسلہ میں قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

'' ...ومثل ذلک ما رفع من اوھام العرب و صرف نفوسھم عن المعارضةللقرآن بعد ان تحداھم الرسول بنظمہ ...و فی کتابنا المنزل الذی یدلنا علی انہ صدق، نظمہ البدیع الذی لا یقدر علی مثلہ العباد'' (٧١) ۔

البتہ اس بات کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ جاحظ ،ونظام کے برخلاف قرآن کریم کو ذاتی معجزہ سمجھتے ہیں ، لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ افکار کی پریشانیوں کی وجہ سے خداوند عالم نے عرب کو قرآن کا معارض نہ لانے پر مجبور بنادیا ہے ۔ اس بناء پر صرفہ جاحظ ، صرفہ نظام سے جدا ہے ۔ یحیی بن حمزة علوی (٧٢ ) ''الطراز'' میں کہتے ہیں : ''تین قسم کا صرفہ موجود ہے : صرفہ نظام، صرفہ جاحظ اور صرفہ سید مرتضی'' ۔ اس کے بعد تینوں کی تحقیق کرتے ہیں اوران کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہیں (٧٣) اگر چہ صرفہ کی چوتھی قسم بھی پائی جاتی ہے جو کہ صرفہ ابن حزم ہے (٧٤) ۔

ہشام الفوطی (٧٥) اور عباد بن سلیمان (٧٦) کے بہت سے مطالب موجود نہیں ہیں ۔ اشعری ان استاد و شاگرد کے نظریات کے متعلق ،قرآن کے اعجاز کے سلسلہ میں لکھتا ہے :

قال ھشام و عباد : لا نقول ان شیئا من الاعرض یدل علی اللہ سبحانہ : و لا نقول ایضا ان عرضا یدل علی نبوة النبی(صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)ولم یجعلا القرآن علماللنبی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) و زعما ان القرآن اعراض(٧٧) ۔

اشعری کے کلام سے ظاہر ہے کہ یہ دونوں قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کی نبوت کی دلیل نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ اس کو حادثات کا جزء سمجھتے ہیں اور حادثات کو کسی چیز کی دلیل قرار نہیں دیتے ۔ لیکن قاضی عبدالجبار نے ان لوگوں کے جواب میں جنہوں نے اس مطلب کو بیان کیا ہے ، کہا ہے:

یہ دونوں افراد قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے منکر نہیں ہیں، لیکن چونکہ یہ اعراض کے سلسلہ میں کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتے، لہذا اس وجہ سے انہوں نے یہ قبول کرلیا کہ قرآن کریم پیغمبرا کرم کے بعد آپ کی نبوت پر دلالت نہیں کرتا ۔ البتہ یہ دونوں افراد جبرئیل کے نازل ہونے کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر دلیل سمجھتے ہیں اور اس طرح سے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کو بھی قبول کرتے ہیں (٧٨) ۔

قاضی عبدالجبار نے عباد اور ہشام کی طرف جو نسبت دی ہے اگر یہ صحیح ہے تو ان دونوں کے نزدیک جبرئیل کا نازل ہونا خود ایک امر خارق العادة ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت پر دلالت کرتا ہے اور جب تک آپ پیغمبر تھے ، قرآن کریم آپ کی نبوت پر دلالت کرتا تھا لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد دلالت نہیں کرتا۔نظریہ اعراض کی وجہ سے یہ دونوں افراد اس نظریہ کے قائل ہوئے ہیں : '' جسم وہی جوہر اور جدا نہ ہونے والے اعراض ہیں، لہذا اگر کوئی عرض جسم سے جدا ہوجائے تو جسم نہیں رہے گا اور کسی دوسری چیز پر بھی دلالت نہیں کرے گا ۔ اور چونکہ قرآن کریم آواز ہے اور جسم سے جدا ہوگیا ہے لہذا کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا (٧٩) ابوبکر باقلانی اور عبدالقاہر جرجانی (٨٠) نے بھی اسی نسبت کو مجمل طریقہ سے بیان کیا ہے (٨١) ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next