انبیا کی بعثت اور مہدی(علیہ السلام) کا انقلاب



الف۔پیغمبر شناسی، امام شناسی، یعنی بارہ اماموں کی شخصیت کے بارے میں جو کچھ شیعت نے بیان کیا ھے وہ نہ ”حلول“ ھے جو تجربہ تاریخی میں خدا کے ھبوط کا حامل ھو اور نہ ھی ”لاادریہ“ کے عقائد جو خدا اور انسان کو اےسے عالم سے رو برو کرتے ھیں جسے خدا وند عالم نے ترک کردیا ھے اور نہ ھی ”سنی اسلام کی انتزاعی وحدت کا نظریہ“ ھے جو خدا اور انسان کے درمیان حد درجہ دوری کا باعث ھے۔ دنیا کی موجودہ صورت حال مجھے اس بات پر مجبور کرتی ھے کہ ”تشبےہ اور تعطیل“ کے درمیان ایک بار پھر ”صراط مستقیم“ کے بارے میں غور و فکر کریں۔

ب۔ غیبت کا مفھوم؛ ”غیبت“ کی اصل و حقیقت کبھی موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق عمیق تفکر کا ذریعہ نھیں بنی ھے۔ بالکل درست ھے کہ مذکورہ حقیقت اس نکتہ کی طرف خاص توجہ کے ساتھ کہ جس کا ”مفضل“ اعلان کرتے ھوئے کہتا ھے: ”بارھواں باب بارھویں امام کی پردہ غیبت میں غیبت کی وجہ سے پوشیدہ رہ گیا ھے“ اگر اس کی طرف توجہ دی جائے تو اس امر کے معنی اس ناچیز کے نظریہ کے مطابق معانی و حقائق کا ابدی اور لامتناھی چشمہ ھے۔ در حقیقت انواع و اقسام زھر کے مقابل ایک سچا تریاق (زھر) ھے ”سوسیا لیزاسیون“ اور ”ماتریا لیزاسیون“ناچیز کے نظریہ کے مطابق حقیقت غیبت اسلامی معاشرہ اور تنظیموں کی اساس اور بنیاد ھے اور اسے غیبی اور معنوی مرکز اور پاےگاہ خیال کرنا چاہئے اسلام کی معنویت صرف اور صرف تشیع کے ساتھ زندہ و پائدار ھے نیز تقویت پاسکتی ھے اور یہ معنی اسلامی معاشرہ میں ھر قسم کے تغیر و تبدیلی کے مقابلہ میں استقامت اور پایداری کا مظاھرہ کرے گا

ج۔ امام زمان؛ ایک ایسا بلند مفھوم ھے جو مفھوم ”غیبت“ کا تکمیل کرنے والا ھے لیکن مکمل طور پر امام غائب کی شخصیت سے متعلق ھے۔ ناچیز اپنے مغربی خیالات اور افکار کے ساتھ ”امام غائب کے مفھوم کو جدید اورا چھوتا مفھوم سمجھتا ھے اور اس طرح ھمارے دل و دماغ میں ا لھام ھوتا ھے کہ اس کے حقیقی رابطہ کو انسان کی معنوی زندگی سے وابستہ جانوں۔ یہ امام غائب سے ارواح کا خصوصی رابطہ حقیقت دین کو مشتبہ بنانے کے خلاف ایک تریاق ھے۔ وہ مستشرقین جنھوں نے شیعہ مذھب کو ایک قدامت پسند اور استبدادی (کٹرپنتھی والا) مذھب بتایا ھے یقینا وہ لوگ غلط فھمی اور عظیم گمراھی کے شکار ھوئے ھیں۔ اور یہ طرز تفکر عےسیٰ کی روحانیت اور کلیسا کے مفھوم سے ماخوذ ھے کہ ان کے ذھن میں فکر کی ھمنوائی سے داخل ھو گیا ھے۔

 Ø¬Ùˆ چیز تمام چیزوں سے زیادہ ”حیدر آملی جیسے شیعہ عرفا“ Ú©Û’ نزدیک اپنی طرف مائل کرتی ھیں ایک اےسی تشبیہ Ú¾Û’ جو امام غائب اور فارقلیط اور اس Ú©Û’ لئے یوحنا Ú©ÛŒ انجیل (چوتھی انجیل) سے دلیل پیش Ú©ÛŒ گئی Ú¾Û’Û” کبھی اےسی معنوی اور فکری ھماھنگی اس درجہ وضاحت Ú©Û’ ساتھ سابقہ نھیں رکھتی Ú¾Û’Û”

 Ù…ذکورہ بالا فکر ایک مغربی انسان Ú©Û’ ذریعہ وجود میں آئی ھیں۔ لیکن اس وجہ سے کہ وہ حقائق تشیع سے نزدیک ھوا Ú¾Û’ اور اس Ú©ÛŒ معاشرت اور ھمسائیگی اختیار Ú©ÛŒ Ú¾Û’Ø› بالخصوص یہ کہ ایک مغربی شخص Ù†Û’ معنوی حقائق اور شیعت Ú©ÛŒ بشارت Ú©Ùˆ اپنے دل میں خوب رچا بسا لیا Ú¾Û’ اور اسے اپنے ذوق اور فلسفہ Ú©ÛŒ بھٹی میں وارد کر لیا Ú¾Û’ØŒ یہ سارے نظریات مذھب تشیع Ú©Û’ زندہ ذخیرے اور امکانات Ú©ÛŒ نسبت قابل اعتماد اور لائق یقین شاہد ھوسکتے ھیں[26]

یقینا ”امامت، وصایت، ولایت، عصمت، عترت، غیبت، حجت، قائم، ولی عصر اور امام زمان“ جیسے سارے مفاھیم ”توحید، نبوت اور معاد“ کے علاوہ تشیع کی ثقافتی اور تاریخی ھویت (ماھیت) سے جڑے ھوئے ھیں اور شیعوں نے انھیں مفاھیم کے حدود میں توحید سے متعلق خدا شناسی کی گھری اور پایدار بنیاد رکھی ھے کہ ان روابط اور سلسلہ مراتب خواہ تکوینی ھوں یا قانون گذاری سب کو طے کر کے ہستی کے تمام عناصر (عرش سے فرش تک) کافی باریک اور دقیق انداز میں بیان کئے گئے ھیں۔

اسلام کے آسمانی مکتب میں، ”تقرب الی اللہ“ انسان کی تخلیق کا آخری ہدف شمار کیا گیا ھے اور ایک طرف قرآنی تعلیمات کے مطابق انسان درجات قرب تک پرواز کرنے کے لئے[27] ”وسیلہ“ کا محتاج ھے۔

اس ”ابتغا الوسیلہ“کی بنیاد پر واجب ھوتا ھے کہ در واقع یہ کھنا چاہئے: کہ ”وسیلہ“ مراتب وجود میں خالق سے مخلوق نیز اپنے اور خدا تک کے قابل دید فاصلہ کو پر کر تا ھے۔

شیعی نقطئہ نظر سے ”ولایت“ کی عروة الوثقی (مضبوط رسی) سے متمسک ھونا وھی ”توسل و ابتغا اور امام ھی وسیلہ“ شمار ھوتا ھے؛ انسان امام اور حجت زمانہ کے ذریعہ خدا سے نزدیک ھو کر روحانی قرب و وصال حاصل کرتا ھے۔ امام ایک کامل انسان ھے اور کامل انسان اللہ کے اسمائے حسنی کا مظھر اور اللہ کے اسم اعظم کی تجلی اور حق سبحانہ و تعالی کے صفات جمال و جلال کی مکمل تجلی گاہ ھے۔ ”امام“ وھی مخلوق ھے جسے پروردگار حکیم نے اس کی تخلیق کرتے وقت فرشتوں پر فخر و مباھات کیا ھے۔ امام یعنی خلیفة اللہ اور حضرت بقیتہ اللہ کے سوا کوئی آخری خلیفہ نھیں ھے وھی جو رب العالمین کے جلوہ کا آئینہ دار اور ”وجہ اللہ“ ھے؛ اسی وجہ سے دعائے ندبہ میں امام زمانہ(علیہ السلام) کو ان الفاظ میں یاد کرتے ھیں:

”اَین وَجْہُ اللّٰہِ الَّذِی یتوَجَّہُ اِلَیْہِ الْاَوْلِیاءُ۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 next