جنگ نہروان کے بعد کے واقعات



     Ø§Ø¯Ú¾Ø± فساد کرنے والوں Ù†Û’ فرصت Ú©Ùˆ غنیمت جانا اور معاویہ کوچند اشعار پر مشتمل ایک خط لکھا اور اس سے درخواست Ú©ÛŒ کہ اپنا نمائندہ صنعاء اور جند روانہ کرے تاکہ اس Ú©Û’ ہاتھ پر بیعت کریں اور اگر اس کام میں تاخیر Ú©ÛŒ تو Ú¾Ù… لوگ علی علیہ السلام اور ان Ú©Û’ مشاور یزید ارحبی Ú©ÛŒ بیعت کرنے پر مجبور Ú¾Ùˆ جائیں Ú¯Û’Û”

جب فتنہ وفساد کرنے والوں کا خط معاویہ کو ملا تو اس نے طے کہ یمن اور حجاز میں قتل وغارت گری، بدامنی اور فساد کامزید ماحول پیدا کرے، اسی وجہ سے اپنی فوج کے سب سے سنگدل سردار بُسربن ارطاة کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہا کہ تین ہزار کا لشکر لے کر حجاز اور مدینہ جاوٴ اور راستے میں جہاں بھی پھونچنا وہ اگر علی کے ماننے والے ھوں تو اانھیں خوب گالی گلوج دینا،سب کو میری بیعت کے لئے دعوت دینا ، بیعت کرنے والوں کو آزاد چھوڑدینا اور جو لوگ بیعت نہ کریں انھیں قتل کردینا اور جہاں بھی علی کے چاہنے والے ملیں انھیں قتل کردینا۔

 Ù…عاویہ Ù†Û’ یہ خاص طریقہ استعمال کیا جب کہ وہ خود شام میں تھا اور علی علیہ السلام سے روبرو ھوکر جنگ نھیں Ú©ÛŒ لیکن اسی مقابلے Ú©ÛŒ جنگ کا نتیجہ حاصل کیا اور ولید بن عقبہ جیسے لوگ کہ جنھوں Ù†Û’ معاویہ Ú©Ùˆ امام علیہ السلام سے روبرو ھوکر جنگ کرنے Ú©Û’ لئے کہا تھا اسے بیوقوف اور احمق کہا اور وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ سیاسی تجربہ میں ماہر نھیں ھیں Û”

ابن ابی الحدید نے اس سلسلے میں بہت عمدہ تبصرہ کیا ھے، وہ لکھتاھے :ولید امام علیہ السلام پر بہت غضبناک تھا کیونکہ جنگ بدر میں اس کے باپ کو مولائے کائنات نے قتل کیا تھا اور عثمان کی حکومت کے زمانے میں خود وہ امام کا تازیانہ کھا چکا تھا چونکہ اس نے بہت دنوں تک کوفہ پر حکومت کی تھی ، اورآمنے سامنے ھو کر اس وقت اپنی میراث کو حضرت علی کے ہاتھوں میں دیکھ رہا تھا لہذا علی علیہ السلام سے مقابلہ کرنے کے علاوہ کسی اور فکر میں نہ تھا۔ لیکن معاویہ ولید کے برخلاف دوراندیش تھا کیونکہ اس نے صفین میں امام علیہ السلام سے جنگ کرکے تجربہ کرلیا تھااور سمجھ گیا تھا کہ اگر اس جنگ میں قرآن کو نیزے پر بلند کرنے کا فریب نہ کیا ھوتا توعلی علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی جان نھیں بچا سکتاتھا اور اگر دوبارہ ان سے جنگ کرتا تو ممکن تھا جنگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ھوجائے ، اسی وجہ سے اس نے مصلحت سمجھی کہ بدامنی ، خوف و وحشت اور فساد بر پا کرکے حضرت علی کی حکومت کو کمزور کرے اور امام علیہ السلام کو مجبور اور ناتواں اسلامی ملک کی رہبری کے لئے ثابت کرے[6]۔

بُسر کا سفر

بُسر تین ہزار لوگوں Ú©Û’ ساتھ شام سے روانہ ھوا اور جب دیر مردو Ú©Û’ پاس پھونچا تو اس میں سے چار سو لوگ بیماری Ú©ÛŒ وجہ سے مر گئے اور وہ Û²Û¶Û°Û° آدمیوں Ú©Û’ ساتھ حجاز Ú©ÛŒ طرف روانہ ھوگیا۔ وہ جس آبادی سے بھی گزرتا لوگوں Ú©Û’ اونٹ Ú©Ùˆ زبردستی ان سے چھین لیتا ØŒ اور خود اور اس Ú©Û’ فوجی اس پر سوار ھوتے تاکہ  دوسری آبادی میں پھونچ جائیں پھر وہاں ان اونٹوں Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ دیتے تھے اور اس دوسری آبادی Ú©Û’ اونٹوں Ú©Ùˆ Ù„Û’ لیتے تھے Û” اسی طرح سے اپنا طولانی سفر Ø·Û’ کیا یہاں تک کہ مدینہ پھونچابُسر Ù†Û’ مدینے میں قدم رکھتے Ú¾ÛŒ وہاں Ú©Û’ لوگوں Ú©Ùˆ برا بھلا کہنا شروع کردیا اور عثمان Ú©Û’ قتل کا واقعہ چھیڑدیا اور کہا: تم سب عثمان Ú©Û’ قتل میں شریک Ú¾Ùˆ یا ان Ú©ÛŒ طرف سے بے توجھی اختیار کرکے انھیں ذلیل Ùˆ خوار کئے Ú¾ÙˆÛ” خدا Ú©ÛŒ قسم ایسا کام کروں گا کہ عثمان کا پورا خاندان قلبی سکون محسوس کرے گا۔

     Ù¾Ú¾Ø± دھمکیاں دینا شروع کردیں اور لوگوں Ù†Û’ اس Ú©Û’ خوف Ú©ÛŒ وجہ سے حویطب بن عبد العزّی Ú©Û’ گھر میں پناہ Ù„ÛŒ جوکہ اس Ú©ÛŒ ماں Ú©Û’ شوہر(سوتیلے باپ)  کا گھر تھا اور اس Ú©Û’ سمجھانے Ú©ÛŒ وجہ سے بُسر کا غصہ ٹھنڈا ھوا Û” اس وقت سب Ú©Ùˆ معاویہ Ú©ÛŒ بیعت Ú©ÛŒ دعوت دی Ú©Ú†Ú¾ لوگوں Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ بیعت Ú©ÛŒ لیکن اس Ù†Û’ صرف اس گروہ Ú©ÛŒ بیعت پر اکتفا نھیں کیا بلکہ مدینہ Ú©Û’ اھم افراد Ú©Ùˆ جو فکری اعتبار سے معاویہ Ú©Û’ مخالف تھے یا عراق میں علی علیہ السلام Ú©Û’ بہت زیادہ نزدیک تھے ان Ú©Û’ گھروں میں آگ لگادی زرارہ بن حرون، رفاعہ بن رافع اور ابو ایوب انصاری کا گھر جل کر راکھ ھوگیا Û” پھر بنی مسلمہ Ú©Û’ سرداروں Ú©Ùˆ بلایا اور ان سے پوچھا : جابر بن عبداللہ کہاں Ú¾Û’ ØŸ یااسے حاضر کرو یا قتل ھونے Ú©Û’ لئے تیار ھوجاوٴ،اس وقت جابر Ù†Û’ پیغمبرا سلام (ص)Ú©ÛŒ بیوی ام سلمہ Ú©Û’ گھر میں پناہ Ù„ÛŒ تھی اور جب ام سلمہ Ù†Û’ پوچھا کہ کیا سوچ رھے Ú¾Ùˆ تو انھوں Ù†Û’ جواب دیا کہ اگر بیعت نھیں کروں گا تو قتل ھوجاوٴں گا اور اگر بیعت کروں تو ضلالت وگمراھی میں مبتلا Ú¾Ùˆ جاوٴں گا لیکن ” الغارات“ Ú©Û’ نقل کرنے Ú©Û’ مطابق جابر Ù†Û’ ام سلمہ Ú©Û’ مشورہ Ú©Û’ مطابق بیعت کرلی Û”

جب بُسر اپنی خرابکاریوں کو مدینہ میں انجام دے چکا تو پھر مکہ کی طرف روانہ ھوا تعجب یہ ھے کہ ابوہریرہ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا ، اس نے مدینہ سے مکہ جانے میں بہت سے گروھوں کوقتل کیا ان کے مال واسباب کو لوٹ لیا اور جب مکہ کے قریب پھونچا تو امام علیہ السلام کے سردار قُثم بن عباس مکہ سے باہر چلے گئے ، بُسر نے مکہ میں قدم رکھتے ھی اپنے پروگرام کو جاری رکھا اور لوگوں کو گالی اور فحش دینے لگا اور سب سے معاویہ کی بیعت لی اور ان لوگوں کو معاویہ کی مخالفت کرنے سے ڈرایاکیا اور کہا: اگر معاویہ سے تم لوگوں کی مخالفت کی خبر مجھ تک پھونچی تو تمہاری نسلوں کو ختم کردوں گا اور تمہارے مال کو برباد کردوں گا اور تمہارے گھروں کو ویران کردوں گا۔

بُسر کچھ دن مکہ میں رہنے کے بعد طائف چلا گیا اور اپنی طرف سے ایک شخص کو ”تبالہ “ روانہ کیا کیونکہ وہ جانتاتھا کہ وہاں حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ رہتے ھیں اور حکم دیا کہ بغیر کسی بات اور سوال وجواب کے سب کو قتل کردینا۔

بُسر کا نمائندہ ” تبالہ “ پھونچا اور اس نے سب کو باندھ دیا ، منیع نے اس سے درخواست کی کہ بُسر سے اس کے لئے امان نامہ لے آئے ، اس نے منیع کی درخواست قبول کرلی، قاصد طائف روانہ ھوا اور بُسر سے ملاقات کی اور اس سے امان نامہ مانگالیکن بُسر نے امان نامہ دینے میں اس قدر وقت لگایا کہ جب تک امان نامہ سرزمین تبالہ پھونچے سب کے سب قتل ھوجائیں۔ بالآخر منیع امان نامہ لے کر اپنی سرزمین پر اس وقت پھونچا جب کہ تمام لوگوں کوقتل کرنے کے لئے شہر کے باہر لاچکے تھے ۔ایک شخص کو وہاں آگے بڑھائے ھوئے تھے کہ اس کو قتل کریں لیکن جلاد کی تلوار ٹوٹ گئی ، سپاھیوں نے ایک دوسرے سے کہا : اپنی تلواروں کو نیام سے نکالو تاکہ سورج کی گرمی سے نرم ھوجائے اور اسے ھوا میں لہراوٴ ،قاصد نے دور سے تلواروں کو چمکتے ھوئے دیکھا اور اپنے لباس کو ھلا کر اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ روک لیں شامیوں نے کہا: یہ شخص اپنے ساتھ خوشخبری لے کر آرہا ھے لہٰذا اپنا ہاتھ روک لو، قاصد پھونچ گیا اور امان نامہ کو سردار کے حوالے کیا اور اس طرح سے سب کی جان بچائی سب سے عمدہ بات یہ ھے کہ جس شخص کو قتل کے لئے حاضر کیا تھا اور تلوار ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے قتل میں تاخیر ھوئی وہ شخص اس کا بھائی تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next