اھل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی



[10] شیخ مفیدۺ نے ارشاد ، ص ۲۴۳ پر اس کی روایت کی ھے ۔

[11] سبط بن جوزی Ù†Û’ ص Û²ÛµÛ· پر اس Ú©ÛŒ روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور وھاںاضافہ کیا Ú¾Û’ کہ زید بن ارقم Ù†Û’ کھا : اے ابن زیاد ! میںاس حدیث سے زیادہ سنگین حدیث تجھ سے بیان کررھا ھوںکہ میں Ù†Û’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ Ùˆ سلم Ú©Ùˆ اس حال میںدیکھا کہ حسن Ú©Ùˆ اپنے داھنے زانوپرا ور حسین Ú©Ùˆ اپنے بائیں زانو پر بٹھا ئے ھوئے تھے اور اپنے ھاتھ کوان Ú©Û’ سر پر رکھ کر فرمارھے تھے:” اللّٰھم انی استودعک ایاھما Ùˆ صالح المومنین“  خدا یا! میں ان دونوں Ú©Ùˆ  اور ان Ú©Û’ باپ صالح المومنین Ú©Ùˆ تیری امانت میں سپرد کررھاھوں”  فکیف  کان ودیعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم عندک یابن زیاد ؟“ اے ابن زیاد ! پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©ÛŒ یہ امانت تیرے پاس کس طرح موجود Ú¾Û’ ØŸ سبط بن جوزی Ù†Û’ پھربیان کیا کہ ھشام بن محمد کابیان Ú¾Û’ : جب ابن زیاد Ú©Û’ سامنے حسین علیہ السلام کا سر رکھا گیا تو کاھن اور پیشنگوئی کرنے والوں Ù†Û’ اس سے کھا: اٹھو اور اپنے قدم ان Ú©Û’ منہ پر رکھو، وہ اٹھا اور اس Ù†Û’ اپنے قدم آپ Ú©Û’ دھن مبارک پررکھ دیا، پھر زید بن ارقم سے کھا: تم کیسا دیکھ رھے Ú¾Ùˆ ØŸ تو زید بن ارقم Ù†Û’ کھا : خدا Ú©ÛŒ قسم میں Ù†Û’ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Ùˆ وھاں اپنے لب رکھتے دیکھا Ú¾Û’ جھاں تو Ù†Û’ قدم رکھاھے۔ سبط بن جوزی کا پھر بیان Ú¾Û’ کہ شبعی Ù†Û’ کھا: ابن زیاد Ú©Û’ پاس قیس بن عباد موجود تھا ؛ابن زیاد Ù†Û’ اس سے کھا میرے اور حسین علیہ السلام Ú©Û’ بارے میں تمھارا نظریہ کیا Ú¾Û’ ØŸ اس Ù†Û’ جواب دیا : قیامت Ú©Û’ دن ان Ú©Û’ جد ØŒ والد اور ان Ú©ÛŒ والدہ آکر ان Ú©ÛŒ شفاعت کریں Ú¯Û’ اورتمھارا دادا ØŒ باپ اور تمھاری ماںآکر تمھاری سفارش کریں Ú¯ÛŒ ۔یہ سن کر  ابن زیاد غضب ناک ھوگیا اور اسے دربار سے اٹھا دیا۔سبط بن جوزی Ú¾ÛŒ Ù†Û’ طبقات ابن سعد سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ   صاحب طبقات بن سعد کا بیان Ú¾Û’ : ابن زیاد Ú©ÛŒ ماں مرجانہ Ù†Û’ اپنے بےٹے سے کھا: اے خبیث تو Ù†Û’ فرزند رسول اللہ Ú©Ùˆ قتل کیا Ú¾Û’Ø› خدا Ú©ÛŒ قسم تو کبھی بھی جنت نھیں دیکھ پائے گا۔ (تذکرہ ØŒ ص Û²ÛµÛ¹ والکامل  فی التاریخ، ج۴، ص Û²Û¶Ûµ)

[12] شیخ مفیدۺ نے ارشاد ص ۲۴۳ پر یہ روایت بیان کی ھے۔اسی طرح سبط ابن جوزی نے تذکرہ ، ص ۲۵۸ ۔ ۲۵۹،طبع نجف میں یہ روایت بیان کی ھے۔

[13] طبری میں کلمئہ شجاعة و شجاعاآیا ھے یعنی بڑی بھادر خاتون ھے لیکن شیخ مفید ۺ نے ارشاد میں وھی لکھاھے جو ھم نے یھا ں ذکر کیا ھے۔( ص ۲۴۲ ،طبع نجف) اور گفتگو کے سیاق و سباق سے یھی مناسب بھی ھے ۔

[14] ابو مخنف کا بیان ھے کہ مجھ سے سلیمان بن ابی راشد نے حمید بن مسلم کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ھے۔ ( طبری ،ج۵،ص ۴۵۶۔ ۴۵۷ )

[15] سورہٴ زمر، آیت ۴۲

[16] سورہٴ آل عمران، آ یت ۱۴۵

[17] ابو مخنف کھتے ھیں:سلیمان بن ابی راشد نے مجھ سے حمید بن مسلم کے حوالے سے روایت بیان کی ھے۔( طبری، ج۵ ، ص ۴۵۷)

[18] طبری Ù†Û’ ذیل المذیل میں بیان کیا Ú¾Û’ : علی بن الحسین جو ( کربلامیں شھید ھونے والے علی بن الحسین سے ) چھوٹے تھے Ù†Û’ فرمایا:جب مجھے ابن زیاد Ú©Û’ پاس Ù„Û’ جایا گیا تو اس Ù†Û’ کھا : تمھارا نام کیا Ú¾Û’ ØŸ میں Ù†Û’ جواب دیا: : علی بن الحسین تو اس Ù†Û’ کھا : کیا     علی بن الحسین Ú©Ùˆ اللہ Ù†Û’ قتل نھیں کیا ØŸ میں Ù†Û’ جواب دیا : میرے ایک بھائی تھے جو مجھ سے بڑے تھے، دشمنو ÚºÙ†Û’ انھیں قتل کردیا Û” اس Ù†Û’ کھا:  نھیں بلکہ اللہ Ù†Û’ اسے قتل کیا ! میں Ù†Û’ کھا: ” اللّٰہ یتوفی الاٴنفس حین موتھا “ یہ سن کر اس Ù†Û’ میرے قتل کا Ø­Ú©Ù… نافذ کردیا تو زینب بنت علی علیھما السلام Ù†Û’ کھا : اے ابن زیاد ! ھمارے خاندان کا اتنا Ú¾ÛŒ خون تیرے لئے کافی Ú¾Û’ ! میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی Ú¾ÙˆÚº کہ اگر انھیںقتل کرنا Ú¾ÛŒ چاھتا Ú¾Û’ تو ان Ú©Û’ ساتھ مجھے بھی قتل کردے ! یہ سن کر اس Ù†Û’ یہ ارادہ ترک کردیا Û” طبری Ù†Û’ ابن سعد (صاحب طبقات) سے نقل کیا Ú¾Û’ کہ انھوں Ù†Û’ مالک بن اسماعیل سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ اور انھوں Ù†Û’ اپنے باپ شعیب سے اور انھوں Ù†Û’ منھال بن عمرو سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ وہ کھتے ھیں : میں علی بن الحسین علیہ السلام Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر ھوا اور عرض Ú©ÛŒ : آپ Ù†Û’ صبح کس حال میں کی؛خدا آپ Ú©Ùˆ صحیح Ùˆ سالم رکھے! انھوں Ù†Û’ جواب دیا : میں Ù†Û’ اس شھر میں تجھ جیسا بوڑھا اور بزرگ نھیں دیکھا جسے یہ معلوم نہ Ú¾Ùˆ کہ ھماری صبح کیسی ھوئی! اب جب کہ تمھیں Ú©Ú†Ú¾ نھیں معلوم Ú¾Û’ تو میں بتائے دیتا Ú¾ÙˆÚº کہ Ú¾Ù… Ù†Û’ اپنی قوم میں اسی طرح صبح Ú©ÛŒ جس طرح فرعون Ú©Û’ زمانے آل فرعون Ú©Û’ درمیان بنی اسرائیل Ù†Û’ صبح کی۔ وہ ان Ú©Û’ Ù„Ú‘Ú©ÙˆÚº Ú©Ùˆ قتل کردیتا تھا اور عورتوں Ú©Ùˆ زندہ رکھتا تھا۔ ھمارے بزرگ اورسید Ùˆ سردار علی بن ابیطالب(علیہ السلام)  Ù†Û’ اس حال میں صبح Ú©ÛŒ کہ لوگ ھمارے دشمن Ú©Û’ دربار میں مقرب بارگاہ ھونے Ú©Û’ لئے منبروں سے ان پر سب وشتم کررھے تھے Û” (اے منھال ) قریش Ù†Û’ اس حال میں صبح Ú©ÛŒ کہ سارے عرب پر وہ صاحب فضیلت شمار ھورھے تھے کیونکہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ان میں سے تھے۔ اس Ú©Û’ علاوہ ان Ú©Û’ پاس فضیلت Ú©ÛŒ کوئی چیز نہ تھی اور سارے عرب اس فضیلت Ú©Û’ معترف تھے اور سارے عرب تمام غیر عرب سے صاحب فضیلت شمار کئے جانے Ù„Ú¯Û’ کیونکہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  Ø¹Ø±Ø¨ÛŒ ان میں سے تھے ؛اس Ú©Û’ علاوہ ان Ú©Û’ پاس فضیلت کا کوئی ذریعہ نھیں تھا اور سارے عجم ان Ú©ÛŒ اس فضیلت Ú©Û’ معترف تھے۔اب اگر عرب سچ بولتے ھیں کہ انھیں عجم پر فضیلت حاصل Ú¾Û’ کیونکہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ان میں سے تھے اور اگر قریش سچے ھیں کہ انھیں عرب پر فضیلت حاصل Ú¾Û’ کیونکہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ان میں سے ھیں تو اس اعتبار سے Ú¾Ù… اھل بیت ھیں اور ھمیں قریش پر فضیلت حاصل Ú¾Û’ کیونکہ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  ھمارے ھیںلیکن Ú¾Ù… لوگوں Ù†Û’ اس حال میں صبح Ú©ÛŒ کہ ھمارے حق Ú©Ùˆ چھین لیاگیا اور ھمارے حقوق Ú©ÛŒ کوئی رعایت نہ Ú©ÛŒ گئی۔ یہ ھمارا روزگار اور ھماری زندگی Ú¾Û’ØŒ اگر تم نھیں جانتے Ú¾Ùˆ کہ Ú¾Ù… Ù†Û’ کیسے صبح Ú©ÛŒ تو Ú¾Ù… Ù†Û’ اس حال میں صبح Ú©ÛŒ Û”

ابن سعد کا بیان Ú¾Û’ : مجھے عبدالرحمن بن یونس Ù†Û’ سفیان سے اور اس Ù†Û’ جعفر بن محمد علیہ السلام سے خبر نقل Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ آپ Ù†Û’ فرمایا : علی بن الحسین ( علیہ السلام) نے۵۸سال Ú©ÛŒ عمر میں دار فانی سے Ú©ÙˆÚ† کیا۔ یہ اس بات Ú©ÛŒ دلیل Ú¾Û’ کہ علی بن الحسین کربلا میں اپنے باپ Ú©Û’ ھمراہ Û²Û³/یا Û²Û´ / سال Ú©Û’ تھے۔ لہٰذا Ú©Ú¾Ù†Û’ والے کا یہ قول صحیح نھیں Ú¾Û’ کہ وہ بچہ تھے اور ابھی ان Ú©Û’ چھرے پر ڈاڑھی بھی نھیںآئی تھی Ø› لیکن وہ اس دن مریض تھے لہٰذا جنگ میں شرکت نھیں کی۔ کیسے ممکن Ú¾Û’ کہ ان Ú©Ùˆ ڈاڑھی تک نہ آئی Ú¾Ùˆ جب کہ ان Ú©Û’ فرزند ابو جعفر محمد بن علی (علیھما السلام ) دنیا میں آچکے تھے۔   ( ذیل المذیل ،ص Û¶Û³Û° ،طبع دار المعارف بحوالہ طبقات ابن سعد ،ج Ûµ ص Û²Û±Û± Û” ۲۱۸وارشاد ØŒ ص Û²Û´Û´ ) سبط بن جوزی Ù†Û’ اصل خبر Ú©Ùˆ بطور مختصر بیان کیا Ú¾Û’Û”( ص Û²ÛµÛ¸ ،طبع نجف )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next