اھل حرم کی کوفہ کی طرف روانگی



 

امام حسین علیہ السلام کا سر ابن زیاد Ú©Û’ دربار میں 

حمید بن مسلم کا بیان Ú¾Û’ : عمر بن سعد Ù†Û’ مجھے بلا یا اور اپنے گھر والوں Ú©Û’ پاس مجھے روانہ کیا  تا کہ میں ان لوگوں Ú©Ùˆ خو Ø´ خبری دوںکہ اللہ Ù†Û’ اسے سلا متی Ú©Û’ ساتھ فتحیاب کیا Û” میں آیا اور اس Ú©Û’ گھر والوں Ú©Ùˆ اس سے باخبر کیا Û” پھر میں پلٹ کر محل آیا تو دیکھا کہ ابن زیاد بےٹھا Ú¾Û’ اور اس وقت وہ لوگ جو سروں Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر کر بلا سے Ú†Ù„Û’ تھے گروہ گروہ اس Ú©Û’ پاس آرھے ھیں Û” قبیلہ Ù´  کندہ Û³Û±/ سروں Ú©Û’ ھمراہ آیا جس کا سر براہ قیس بن اشعث تھا۔ ھوازن Û²Û°/ سروں Ú©Û’ ھمراہ آئے جن کا سر براہ شمر بن Ø°ÛŒ الجوشن تھا۔ قبیلہٴ تمیم Û±Û·/ سروں Ú©Û’ ساتھ وارد ھوا ØŒ بنی اسد Û¶/ سروں Ú©Û’ ھمراہ ØŒ مذحج Û·/ سراور بقیہ  Û·/ Û·/ سر Ù„Û’ کر  وا رد ھوئے۔ اس طرح ستر (Û·Û°) سر Ú¾Ùˆ گئے۔ وہ سب Ú©Û’ سب عبید اللہ Ú©Û’ پاس آئے اور عام لوگوں Ú©Ùˆ بھی دربار میں آنے Ú©ÛŒ اجازت ملی تو داخل ھونے والوں Ú©Û’ ساتھ میں بھی داخل ھوا۔میں Ù†Û’ دیکھا امام حسین علیہ السلام کا سر اس Ú©Û’ سا منے رکھا Ú¾Û’ اور وہ Ú†Ú¾Ú‘ÛŒ سے دونوں دانتوں Ú©Û’ درمیان آپ Ú©Û’ لبوں سے بے ادبی کر رھا ھے۔جب زید بن ارقم [9]Ù†Û’ اسے دیکھا اور غور کیا کہ وہ اپنی شقاوتوں سے باز نھیں آرھا Ú¾Û’ اور Ú†Ú¾Ú‘ÛŒ سے دندان مبارک Ú©Ùˆ چھیڑ Û’ جا رھا Ú¾Û’ تو انھوں Ù†Û’ ابن زیاد سے کھا :” اُعل بھٰذا القضیب عن ھا تین الشفتین فوالذي لا الہ غیرہ لقد راٴیت شفتي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم علی ھا تین الشفتین یقبلھما !“اس Ú†Ú¾Ú‘ÛŒ Ú©Ùˆ ان دونوں لبوں سے ھٹالے، قسم Ú¾Û’ اس ذات Ú©ÛŒ جس Ú©Û’ علاوہ کوئی معبود نھیں ،میں Ù†Û’ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Ùˆ خود دیکھا Ú¾Û’ کہ آپ اپنے دونوں لبوں سے ان لبوں Ú©Ùˆ بوسہ دیا کر تے تھے۔

پھر وہ ضعیف العمر صحابی ٴرسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چیخ مار کر رونے لگا تو ابن زیاد نے کھا : خدا تمھاری آنکھوں کو گریاں رکھے!اگر بڑھاپے کی وجہ سے تیری عقل فاسد اور تو بے عقل و بے خرد نہ ھو گیا ھوتا تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔ یہ سن کر زید بن ار قم وھاں سے اٹھے اور فوراً باھر نکل گئے۔ [10]

نکلتے وقت و ہ یھی کھے جارھے تھے :”ملّک عبد عبداً فاتخذھم تلداً ! اٴنتم یا معشر العرب العبید بعد الیوم قتلتم ابن فا طمہ و اٴمّر تم بن مرجانة ! فھو یقتل خیارکم ویستعبد شرارکم فرضیتم بالذل ! فبعد ًالمن رضي بالذل !“[11]ایک غلام نے د وسرے غلام کو تخت حکومت پربٹھا یا اور ان لوگوں نے تمامچیزوںکو اپنا بنالیا ۔ اے گروہ عرب آج کے بعد تم لوگ غلام ھو کیونکہ تم نے فرزند فاطمہ کو قتل کردیا اور مرجانہ کے بیٹے کو اپنا امیر بنالیا ۔وہ تمھارے اچھوں کو قتل کرے گا اورتمھارے بروں کو غلام بنالے گا، تم لوگ اپنی ذلت و رسوائی پرراضی و خوشنود ھو، برا ھو اس کا جو رسوائی پر راضی ھوجائے۔راوی کا بیان ھے کہ جب زید بن ارقم باھر نکلے اور لوگوں نے ان کی گفتار سنی تو کھنے لگے : خدا کی قسم زید بن ارقم نے ایسی بات کھی ھے کہ اگر ابن زیا د اسے سن لے تو انھیں قتل کردے گا۔

دربار ابن زیاد میں اسیروں کی آمد

جب امام حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ بھنیں ØŒ خواتین اور بچے عبیداللہ بن زیاد Ú©Û’ دربار میںپھنچے تو زینب بنت فاطمہ بھت Ú¾ÛŒ معمولی لباس Ù¾Ú¾Ù†Û’ ھوئے تھیں اور غیر معروف انداز میں دربار میںوارد ھوئیں۔ کنیزیں اور خواتین آپ Ú©Ùˆ چاروں طرف سے اپنی جھرمٹ میں لئے تھیں تاکہ کوئی آپ Ú©Ùˆ پھچان نہ سکے پھر آپ انھیں Ú©Û’ درمیان بےٹھ گئیں۔عبیداللہ بن زیاد Ù†Û’ پوچھا : یہ بےٹھی ھوئی خاتون کون Ú¾Û’ ØŸ آپ Ù†Û’ کوئی جواب نھیں دیا توا س Ù†Û’ تین بار اس سوال Ú©ÛŒ تکرار Ú©ÛŒ اور تینوں بار آپ Ù†Û’ اس سے تکلم نھیںکیاپھر آپ Ú©ÛŒ بعض کنیزوں Ù†Û’ کھاکہ یہ زینب(علیہ السلام)  بنت فاطمہ(علیہ السلام)  ھیں ۔یہ سن کر اس Ù†Û’ کھا :” الحمد للّٰہ الذی فضحکم Ùˆ قتلکم واٴکذب اٴحدوثتکم !“شکر Ú¾Û’ اس خدا کا جس Ù†Û’ تم لوگوں Ú©Ùˆ ذلیل کیا ØŒ قتل کیا اور تمھاری باتوں Ú©Ùˆ جھوٹاثابت کیا! زینب کبریٰ Ù†Û’ جواب دیا :” الحمد للّٰہ الذی اٴکرمنا بمحمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم Ùˆ طھّرنا تطھیراًلاکما تقول اٴنت انما یفتضح الفاسق Ùˆ یکذب الفاجر“شکر Ú¾Û’ اس خدا کا جس Ù†Û’ ھمیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ وسیلے سے عزت وکرامت عطافرمائی اور ھمیں اس طرح پاک Ùˆ پاکیزہ رکھا جو پاک Ùˆ پاکیزہ رکھنے کا حق تھا؛ ایسا نھیں Ú¾Û’ جیسا تو کہہ رھا Ú¾Û’ ،بے Ø´Ú© ذلیل فاسق Ú¾Û’ اور جھوٹ فاجر کا ثابت ھوتا Ú¾Û’Û”

ابن زیادنے کھا :” کیف راٴیت صنع اللّٰہ باٴ ھل بیتک ؟“ اپنے اھل بیت کے سلسلے میں اللہ کے سلوک کو کیسا محسوس کیا؟

زینب( علیھا السلام ) نے جواب دیا:” کتب علیھم القتل فبرزوا الی مضا جعھم ، و سیجمع اللّٰہ بینک و بینھم فتحاجون الیہ و تخا صمون عندہ“[12]خدا وند عالم نے اپنی راہ میں افتخار شھادت ان کے لئے مقرر کر دیا تھا تو ان لوگوں نے راہ حق میں اپنی جان نثار کردی ، اور عنقریب خدا تجھے اور ان کو یکجا اور تمھیں ان کے مد مقابل لا کر کھڑا کرے گا تو وھاں تم اس کے پاس دلیل پیش کرنا اور اس کے نزدیک مخاصمہ کرنا ۔

ابن زیاد رسوا ھو چکا تھا اور اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا لہٰذا وہ غضبناک اور ھیجان زدہ ھوکر بولا:” قد اٴشفی اللّہ نفسي من طاغیتک والعصاة المردہ من اٴھل بیتک ! “خدا نے تمھارے طغیان گر بھائی اور تمھارے خاندان کے سر کش باغیوں کو قتل کر کے میرے دل کو ٹھنڈا کر دیا ۔

یہ سن کر فاطمہ کی لخت جگر رونے لگیں پھر فرمایا :” لعمری لقد قتلت کھلي واٴبرت اھلي وقطعت فرعي واجتثثت اٴصلي ! فان یشفیک ھٰذافقد اشتفیت! “قسم ھے میری جان کی تو نے ھمارے خاندان کے بزرگ کو قتل کیا ھے ، ھمارے عزیزوں کے خو ن کو زمین پر بھایا، ھماری شاخوں کو کاٹ ڈالا اور ھماری بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کی کوشش کی ، اگر اس سے تجھے خوشی ملی ھے تو خوش ھولے۔

عبیداللہ بن زیاداحساس شکست کرتے ھوئے بولا: یہ تو بڑی قافیہ باز عورت ھے۔[13]میری جان کی قسم تیرا باپ بھی قافیہ باز شاعر تھا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next