معرفت امام(عام امامت)



ہ ایسا خدا ہے جو تمام حالات میں انسان Ú©Û’ ساتھ ہے، وہ تمام دوسروں Ú©ÛŒ نسبت انسان Ú©Û’ حتٰی کہ خود اس Ú©Û’ نفس سے بھی زیادہ اس سے قریب ہےاور وہ ارحم الراحمین ہے۔ جس شخص Ù†Û’ ان معانی کوسمجھ لیا، ہمیشہ کا ئنات کواللہ کا مظہراور اپنے آپ Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ بارگاہ میں حاضر سمجھے گا اور  جس Ù†Û’ نبوت ورسالت Ú©Û’ معیار Ú©ÛŒ شناخت حاصل کرلی ہے وہ مکمل طور پرپیغمبر شناس ہے۔

حضرت امام علیؑ اس موحّد اور پیغمبر شناس کے لئے جو چاہتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کے جانشینوں ،معصوم اماموں اور ان کے نائبوں (کہ جو سیاسی فقہ میں لوگوں کے فکری اوردینی پیشوا ہیں) کی شناخت ومعرفت پیدا کرے۔اس کے لئے راستے کو واضح کرتے ہوئے اس طرح فرماتے ہیں:

“أُولی الامر بالمعروف والعدل والاحسان” ([40])

اولی الامر کومعروف پر عمل کرنے، عدالت کومحفوظ اوراجرا کرنے اور احسان کی بنیاد پر عمل کرنے کے ذریعہ پہچانو، لہٰذا وہ چیز جس سے امام کی حقیقی شناخت ومعرفت حاصل ہوتی ہے وہ صرف امام کو نام، عنوان اور حسب ونسب کے ذریعہ پہچاننا نہیں ہے بلکہ امام کی حقیقی معرفت ان کی امامت اور ان کی صفات کے جاننے میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنینؑنے معرفت کا بنیادی اورمفید طریقہ بیان فرمایا ہے۔

اس بنیادی راستے کو طے کرنے لے لئے مختلف روشیں ہیں جس طرح خدا وند عالم کی شناخت کے لئےصدیقین کے طریقہ سلوک کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ صدیقین وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کواس کے ذریعہ پہچانتے ہیں جس طرح لوگ سورج کو نہ کسی کے خبر دینے ، نہ اس کی گرمی اور ہوا کی روشنی کے ذر یعہ پہچانتے ہیں بلکہ خود اسے دیکھ کر پہچانتے ہیں۔

چون سخن در وصف این حالت رسید ھم قلم بشکست وھم کاغذ درید ([41])

یعنی: جب زبان خدا کی توصیف کے لئے بڑھی تو قلم ٹوٹ گیا اور کا غذ پارہ پارہ ہوگیا۔

آفتاب آمد دلیل آفتاب گر دلیلت باید از وی رومتاب

یعنی: سورج طلوع ہوا تووہ  خود اپنی آپ دلیل ہے، اس Ú©Û’ لئے کسی دلیل Ú©ÛŒ ضرورت نہیں ہے۔

از وی ار سایہ نشانی می دہد شمس ہر دم نور جانی می دہد



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next