معرفت امام(عام امامت)



﴿ u‘É‹ZãŠÏj9 `tB tb%x. $wŠym ¨,Ïts†ur ãAöqs)ø9$# ’n?t㠚úï͍Ïÿ»s3ø9$# }([28])

تاکہ  جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں Ú©Û’ خلاف حتمی فیصلہ ہوجائے. اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس آیت میں، زندہ اور کافر Ú©Ùˆ ایک دوسرے Ú©Û’ مقابل قرار دیا ہے  نہ کہ مومن اور کافروں Ú©Ùˆ گویا وہ فرما رہا ہے کہ انسان یا زندہ ہے یا کافر ہے۔

قرآن کریم بہت سے مقامات پر چار مطالب Ú©Ùˆ مختصر اور مفید انداز میں بیان کرتا ہے، اس طرح کہ ان میں دوچیزیں جو ظاہری اعتبار سے برابر نہیں ہیں لیکن باطن اور حقیقت میں برابر ہیں اس لیے ذکر کرتا ہے اور دیگر دومطالب پہلے دومطالب Ú©ÛŒ نسبت سے  ثابت ہو جائیں Ú¯Û’ØŒ مثال Ú©Û’ طور پر اس آیت میں، زندہ اورکافر کوایک دوسرے Ú©Û’ مقابلہ میں قرار دیا اور فرمایا کہ انسان یا زندہ ہے یا کافر جبکہ رائج تقسیم Ú©Û’ لحاظ سے انسان یا زندہ ہے یا مردہ اور پھر زندہ یا مسلمان ہے یا کافر، قرآن مجید Ú©ÛŒ روش اس تقسیم میں اس طرح ہے کہ وہ  فرما رہا ہے کہ انسان یا مومن ہے یا مردہ۔

یعنی زبان وحی، کا فر Ú©Ùˆ مردہ سمجھتی ہے کیونکہ وحی Ù†Û’ کافر Ú©Û’ مقابلہ میں زندہ Ú©Ùˆ قرار دیا ہے اور زندہ Ú©Û’ مقابلہ میں کافر کا استعمال کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن  مجیدکی نگاہ میں، کافر، حقیقت میں مردہ ہے اور حقیقی حیات صرف اہل ایمان سے مخصوص ہے۔ یہ تقابل اگرچہ بظاہربعید معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں بعید نہیں ہے بلکہ بالکل مناسب ہے۔

وہ شخص جو جاہلیت کی موت کے ساتھ دنیا سے چلاجائے، اس نے جاہلانہ زندگی بسر کی ہے، اور جس نے جاہلانہ زندگی گذاری ہے اس نے حقیقی زندگی کی لذت کو محسوس نہیں کیا ہے۔ جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے اور ولایت کے سورج کی کرنیں اس پر جلوہ فگن نہ ہوں، اس کی زندگی جاہلیت کی زندگی ہے اور انسانی حیات سے اس کا دامن خالی ہے، اگرچہ حیوانی حیات اس میں موجود ہے۔ جس طرح اگر کوئی شخص علم رکھتے ہوئے، جان بوجھ کرقرآن مجید کی حقانیت اور حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرے اوراسے قبول نہ کرے اور کلام الہٰی کی معرفت نہ رکھتا ہو، تو قرآن کی زبان میں وہ مردہ کہا جائے گا، اسی طرح جب کوئی شخص، اپنے امامِ زمانہ سے ولائی رابطہ بر قرار نہ کرےاور ان کی ولایت کی معرفت اس کے دل میں نہ ہو، حقیقت میں وہ مردہ ہے اور ہرگز قرآنی زندگی کہ جو ولائی زندگی سے ہماہنگ ہے، اسے نصیب نہیں ہوئی ہے۔

قرآن مجید کی نگاہ میں انسانی حیات

حیات ان صفات میں سے ہےکہ جو انسان میں پائی جاتی ہیں اور حیات کی حقیقت کو انسانی زندگی میں اس وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہمیں انسان کی صحیح تعریف وشناخت معلوم ہو جائے۔

بہت سے دانشوروں Ù†Û’ØŒ انسان Ú©Ùˆ مقام تعریف میں" حیوان ناطق" کہا ہے، لیکن قرآنی تعلیمات میں انسان  Ú©ÛŒ تعریف مختلف ہے۔ بعض دیگر دانشوروں Ù†Û’ کہا ہے کہ انسان ایک ایسا زندہ موجود ہے کہ جو تکلم کرتا ہے یا انسان وہ جاندار موجود ہے جو کلیات کوسمجھتاہے، لیکن قرآن، انسان Ú©Ùˆ" حیّ متألہ" (یعنی ایسا زندہ موجود کہ جو فکر کرتا ہے)کےعنوان سے جانتا ہے اور اسکی  پہچان کرواتا ہے  نہ صرف حیوان ناطق۔وحی Ú©ÛŒ نگاہ میں انسان وہ زندہ موجود ہے جو فکر واندیشہ Ú©Û’ ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور اس Ú©ÛŒ زندگی وحیات اس Ú©ÛŒ سوچ اور فکر  میں محدود ہوتی ہے "تألّہ" کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے عقاید، اخلاقیات،فقہی مسائل، حقوق اوردیگر تمام مسائل زندگی میں موحدانہ افکار رکھتا ہو اور توحید Ú©Û’ ساتھ عمل کرتا ہو پس غیر "متالہ" شخص، زندہ نہیں ہے اور انسانی حیات Ú©ÛŒ حقیقت سے محروم ہے۔اس آیت

{ u‘É‹ZãŠÏj9 `tB tb%x. $wŠym ¨,Ïts†ur ãAöqs)ø9$# Â’n?tã šúï͍Ïÿ»s3ø9$#  }([29])

 Ú©Û’ مطابق قرآن مجید صرف زندہ انسانوں میں اثر رکھتا  ہے، ورنہ کفار، جو کہ مردہ ہیں، خدا Ú©Û’ قہر میں مبتلا ہیں۔کفار چونکہ "تالّہ" سے خالی ہیں، قرآن سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی لیے ان میں انسانی حیات بھی نہیں پائی جاتی ہے۔

عقلانی زندگی کےدرجات اور نشانیاں

معقول زندگی کی کچھ نشانیاں اور مراتب ہیں، عقلانی زندگی کی نشانی گناہ سے نفرت کرنا اور اس کے انجام دینے سے پر ہیز کرنا ہے۔ عمومی طور پر قرآن ا وربالخصوص پر روا یات معصومین علیھم السلام میں گناہ کو جیفہ یا مردار کی لاش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس تعبیر کو اگرچہ مختلف الفاظ اوراشکال میں بیان کیا گیا ہے لیکن معنی میں سب کی بازگشت ایک حقیقت کی طرف ہے اور وہ یہ ہےکہ گناہ کی حقیقت، بدبودار مردار ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next