معرفت امام(عام امامت)



امام کےمنصوب  ہونے کا مقصد صرف   کسی شخص یا معاشرہ Ú©Ùˆ عملی لحاظ سےمنظم کرنا نہیں ہے بلکہ معارف الٰہی Ú©Ùˆ بیان کرنا، اسلام Ú©Û’ فقہی وحقوقی احکام Ú©ÛŒ تشریح کرنا، قضاوت  اور انصاف کرنا، حدود وتعزیرات کا جاری کرنا، دین Ú©ÛŒ حدود کا  دفاع کرنا اور انسانوں Ú©ÛŒ علمی اور علمی مشکلات کوبر طرف کرنا بھی امام Ú©ÛŒ ذمہ داری ہے۔ جس طرح انسان امام Ú©Û’ محتاج ہیں اسی طرح فرشتوں Ú©Ùˆ بھی امام Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ اس لئے کہ امام اسمائے الٰہی Ú©Û’ معلم ہیں اور ملائکہ، امام سے علوم حاصل کرتے ہیں اور انہیں Ú©Û’ ذریعہ اپنی علمی وعملی مشکلات Ú©ÛŒ حل کرتے ہیں۔

خدا وند متعال نے حضرت آدم ؑ سے فرمایا کہ: تم میرے خلیفہ اور اس زمانہ کے امام ہو، لہٰذا ملائکہ کو اسمائے الٰہی سے باخبر کرو:

{يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ}[7]!

امام انسان کامل،معصوم،مظھر اسم اعظم اور اعظم الاسماء ہے، اسمائے الٰہی سے جو مطالبہ اور درخواست کی جاتی ہے ہیں وہ اسم اعظم اور اس کے مظہر کی برکت سے پورے ہوتے ہیں۔ یہ امام کے اعلیٰ مقام ومنزلت کی ایک تجلّی ہے۔ جس طرح انسان آسمان کے دور ترین ستاروں کا نظارہ نہیں کرسکتا ہے،اور اس تک پہنچنا تو دور کی بات ہے، اسی طرح کسی کی عقل کسی امام کی کوحقیقتِ امامت درک نہیں کرسکتی ہے۔

کبھی بھی بشر کی عقل امامت کی بلندیوں کو نہیں چھوسکتی ہے اس کی فکر اس بلند ورفیع مقام تک نہیں پہنچ سکتی ہے، تو پھر اسے امام کو منصوب ومعین کرنے کا اختیار کہاں سے حاصل ہوگیا:

“ھو بحیث النجم من ید المتناولین ووصف الواصفین فأین الاختیار من ھٰذا وأین العقول عن ھٰذا وأین یوجد مثل ھٰذا” (۱)[8]

امام Ú©ÛŒ تعیین لوگوں Ú©Û’ اختیار  میں نہ ہونے پر مہدوی برھان

سعد بن عبد اللہ قمی Ù†Û’ حضرت بقیۃ اللہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) سے سوال کیا کہ کیوں نہیں  امت اپنے امام Ú©Ùˆ معین کر سکتی ہے؟ حضرت Ù†Û’ پوچھا:امام سےتمہاری مراد کونسا امام ہے؟ اصلاح کرنے والا صالح یا فساد پھیلانے والا برا؟ سعد Ù†Û’ عرض Ú©ÛŒ: میری مراد اصلاح کرنے والا صالح امام ہے، پھر امام زمان (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) Ù†Û’ فرمایا: کہ کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ دوسرے شخص Ú©Û’ دل میں فاسدفکریں ہیں یا اصلاحی فکریں موجزن ہیں، ایسی صورت میں کیا ممکن نہیں ہے کہ لوگ ایسے شخص Ú©Ùˆ انتخاب کرلیں جو فساد پھیلانے والی فکر رکھتا ہو؟ اس Ù†Û’ عرض کیا: ہاں ممکن ہے۔ اس وقت امام عصرؑ Ù†Û’ فرمایا: یہی وجہ ہے کہ میں Ù†Û’ تمہارے لئے برھان قائم کیا تاکہ تمہاری عقل مطمئن ہوجائے:

“قلت: فأخبرنی یا مولایٰ! عن العلۃ التی تمنع القوم من إختیار امام لأنفسھم؛ قال: مصلح أو مفسد قلت: مصلح، قال: فھل یجوز عن أن تقع خیرتھم علیٰ المفسد بعد أن لا یعلم أحد ما یخطر ببال غیرہ من صلاح أو فساد قلت: بلیٰ۔ قال: فھی العلّۃ أوردھا لک ببرھان ینقادبہ عقلک” (۱)[9]

معقول زندگی ، امام (عج) کی معرفت کا ثمرہ

شیعہ وغیر شیعہ محدثین حضرت خاتم الانبیا ﷺ سے نقل کرتے ہیں:

جو شخص مر جائے اور اپنے زمانہ کے امام کی معرفت نہ رکھتا ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی: مَن مٰاتَ وَلَم یَعرِف إِمٰامَ زَمٰانِہٖ مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ” (۱)[10] اگر کوئی انسان مر جائے اس حال میں کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانتا ہو تاکہ اپنے ولی کا مطیع قرار پائے تو وہ جاہلیت کی موت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next