معرفت امام(عام امامت)



Ú©ÛŒ بنیاد پر عقلانی زندگی اور جاہلانہ موت سے رہائی، ایسے امام Ú©ÛŒ شناخت پر موقوف ہے کہ جس Ú©ÛŒ صفات،نیکیوں  پر عمل کرنا اور عدل واحسان کا قائم کرنا ہے، دوسرےلفظوں میں امام معصوم Ú©ÛŒ حقیقت ہی امامت Ú©ÛŒ معرفت ہے صرف انکی سطحی آشنائی اور ان Ú©Û’ انسانی فضائل Ú©ÛŒ طرف مجذوب ہونے پر موقوف نہیں ہے۔

جو شخص امام کواللہ کا ولی، اللہ کا خلیفہ، انسان کامل ،معصوم اور خدا Ú©ÛŒ جانب سے جنکی اطاعت واجب  ہو،اس حیثیت سے پہچانتا ہو، اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ امام زندہ وحاضر ہیں، ہمارے اعمال Ú©Ùˆ دیکھ رہے ہیں اور قیامت Ú©Û’ دن صاحب شفاعت ہیں، تو امام Ú©ÛŒ معرفت Ú©Û’ بے نظیر آثار سے فیضیاب ہوگا،عقلانی زندگی Ú©Û’ کمال تک رسائی ہوگی اور جاہلیت Ú©ÛŒ موت سے نجات پائے گا۔ چونکہ ہرموجود اپنے وجودی آثار Ú©Û’ ذریعہ پہچانا جاتا ہے، جیسا کہ پرورش پانااورتولید مثل کرنایہ نباتاتی زندگی Ú©Û’ آثار ہیں اور یہ آثار جس موجود سے ظاہر ہوتے ہیں، اسے نبات کا عنوان دیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی اس وقت، انسانی زندگی کا حامل ہوگا، جب اس سے انسانی حیات  Ú©Û’ آثار ظاہر ہوں، اور آیت

{ u‘É‹ZãŠÏj9 `tB tb%x. $wŠym ¨,Ïts†ur ãAöqs)ø9$# ’n?t㠚úï͍Ïÿ»s3ø9$#}([45])

تاکہ  جو زندہ یں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں Ú©Û’ خلاف حتمی فیصلہ ہوجائے۔ Ú©ÛŒ بنیاد پر جیساکہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، کافر میں زندگی نہیں ہے اور چونکہ کفر، ایمان Ú©Û’ مقابلہ میں ہے اور نور  ایمان کا ØŒ انسان Ú©Û’ ظاہر وباطن میں ظہور ØŒ انسانی حیات Ú©Û’ آثارمیں سے ہے لہٰذا وہ معاشرہ جو ایمان Ú©ÛŒ روشنی سے محروم ہے تو اس Ù†Û’ نہ تو انسان Ú©ÛŒ حقیقی زندگی Ú©Ùˆ محسوس کیا ہے اور نہ اسے انسانی معاشرہ کہا جاسکتا ہے اگرچہ وہ امام Ú©Û’ برجستہ اخلاقی فضائل Ú©ÛŒ طرف Ú©Ú†Ú¾ رحجان  بھی رکھتا ہو۔

دوسری طرف ایمان Ú©Û’ نور Ú©ÛŒ  روشنی اور انسانی حیات سے فیضیاب ہونا، ہر زمانہ Ú©Û’ معصوم Ú©ÛŒ پہچان پر موقوف ہے:

 â€œÙ…ÙŽÙ† مٰاتَ ÙˆÙŽÙ„ÙŽÙ… یَعرِف إِمٰامَ زَمٰانِہٖ مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ” ([46])

ہر زمانہ Ú©Û’ معصوم Ú©ÛŒ عمیق ومفید معرفت کا حصول  ہر انسان Ú©ÛŒ Ø° مہ د اری ہے تاکہ انسان اس Ú©ÛŒ روشنی میں، انسانی زندگی سے آراستہ ہو جائیں اور پھر وہ سماج اورمعاشرہ  کہ جہاں  لوگ انسانی حیات Ú©Û’ حامل ہوں، اس Ú©ÛŒ تمام جہات وصفات انسانی ہونگی۔

معرفت کی اس بلند چوٹی تک پہنچے اور حضرت علیؑ کے نورانی اقوال گہرائی سے سمجھنے کے لئے،برائی کی شناخت اور نیکی کی پہچان ضروری ہے۔ ہر وہ چیز جسے عقل، قرآن اور سنّت کی تائید حاصل ہے وہ نیکی ہے اور جن چیزوں کو یہ تائید حاصل نہیں ہے یعنی برھان مزاج عقل اور معتبر منقولات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے جیسے حسد، تکبر، خودپسندی، خیالی پروازیں، اظہار تکبر، ثروت اندوزی اور آسائش پسندی وغیرہ برائی اور منکر ہیں، کیونکہ قرآن اور معصومیں علیہم السلام کی سنّت اوربرہان مزاج عقل کے نزدیک انہیں کوئی تائید حاصل نہیں ہے ۔نفس کی بہترین صفتیں، اور علمی وعملی فضائل چونکہ عقل ومنقول کے نزدیک، کمالات شمار ہوتی ہیں لہٰذا نیکی اور معروف ہیں۔

وہ مبارک اور مقدس مثلث جسے امیر المومنین علیؑ Ù†Û’ بیان فرمایا ہے،اس Ú©Û’ مطابق جو شخص صرف امرو نہی کرتا ہے اور اپنے Ú©Ùˆ سب سے علیحدہ اور بالا ترسمجھتا ہے وہ امام نہیں ہے، بلکہ امام وہ شخص ہے جس Ú©ÛŒ سیرت نیکیوں  Ú©ÛŒ آئینہ دار ہو، جس Ú©ÛŒ سنّت عدالت Ú©ÛŒ علمبردار ہو اور جس Ú©ÛŒ فطرت احسان Ú©ÛŒ ضوفشانی کر رہی ہو۔

جو بھی امام Ú©Ùˆ اس کی‌علمی وعملی سنّت Ú©Û’ ساتھ پہچانتا ہے ،وہ ضرور امام Ú©ÛŒ اقتداء کرے گا اور ان کا ماموم بنے گا۔ایسا امام شناس راہ ولایت پر چلتاہو ا امام اور ولی خدا Ú©ÛŒ معرفت حاصل کرتا ہے  اور مشاہدہ کرتا ہے کہ امام Ú©ÛŒ ذات سوا Ú©Û’ معروف اور نیکی Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ نہیں ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next