معرفت امام(عام امامت)



قرآن Ú©ÛŒ زبان میں جاہلانہ زندگی یامعقول زندگی کا معیار،ٹیکنالوجی وصنعت کاترقی کرنا،رفاہ اور آسائش بھری زندگی کےسارے اسباب کا فراہم ہونا نہیں ہے۔ قرآن کریم Ù†Û’ بعض قوموں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی وصنعت میں حیران Ú©Ù† ترقی اورمعاشرتی  زندگی Ú©ÛŒ رفاہ وا ٓسائش سے ہمکنار ہونے Ú©Û’ باوجود، جاہلیت Ú©ÛŒ اس حدتک پہنچ گئیں کہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگئے اور خدا Ú©ÛŒ رحمت سے دور ہوگئے اور آخر میں ہلاکت ان کا نصیب بن گئی۔ قوم عاد، ثموداوراصحاب حجر اس طرح Ú©ÛŒ قوموں Ú©ÛŒ مثالیں ہیں۔

قوم عاد شہر بنانے Ú©Û’ فن میں بے نظیر تھی لیکن انکی زندگی جاہلانہ  تھی [21] اسی طرح ایران اور روم Ú©ÛŒ سلطنتیں اس دور میں آرام وآسائش اور تہذیب وتمدن کا بہترین نمونہ تھیں، لیکن ان Ú©ÛŒ زندگی جاہلانہ تھی۔

جاہلانہ زندگی کرنے اور جاہلانہ مرنے کا معیار یہ ہے کہ انسان اپنے خدا اور اس کے نمائندوں کی معرفت نہ رکھتا ہو، جبکہ اس کے سامنے ابدیت کا مسئلہ در پیش ہو۔

“مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ” ([22]) Ú©ÛŒ تعبیر دیگر متعدد مقامات پر بھی استعمال ہوئی ہے، جیسے مقام وصیت میں: “مَن مٰاتَ بِغَیرِ وَصِیَّۃٍ مٰاتَ مٖیتَۃَ الجٰاھِلِیَّۃَ”[23] لیکن ان دو تعبیروں میں فرق ہے: حدیث وصیت میں جاہلیت Ú©ÛŒ موت، کمال Ú©ÛŒ نفی کر رہی ہے، لیکن جو حدیث ہر عصر Ú©Û’ امام Ú©ÛŒ شناخت Ú©Û’ بارے میں ہے ا س میں حقیقت Ú©ÛŒ نفی ہو رہی ہے۔ مثال Ú©Û’ طور پر “ حدیث نبوی “لا صلاۃ لجار المسجد إلّا فی مسجدہ” ([24]) اور رسول اکرم ï·º Ú©ÛŒ حدیث: “لاصلاۃ إلا بفاتحۃ الکتاب”[25] میں لاصلوۃ Ú©ÛŒ تعبیر کا آنا کہ  دونوں حدیث  میں نماز Ú©Û’ تمام ہونے Ú©Ùˆ بتا یا گیا ہے اس فرق Ú©Û’ ساتھ کہ پہلی حدیث میں مراد نفی کمال ہے اور دوسری حدیث میں نفی حقیقت مقصود ہے۔

 Ø§Ø³ Ú©ÛŒ وضاحت  یہ ہے کہ دوسری حدیث میں، عبارت”لاصلوۃ” کا معنی یہ ہے کہ اگر نمازپڑھنے والا جان بوجھ کر سورہ حمد Ú©ÛŒ تلاوت نہ کرے تو گویا اس Ù†Û’ سرے سے نماز ادا نہیں Ú©ÛŒ ہے جس طرح اگر کوئی بغیر وضو Ú©Û’ نمازپڑھے تو اس Ú©ÛŒ نماز ادا نہیں ہوئی ہے “لا صلاۃ إلَّا بطہور” ([26]) لیکن پہلی حدیث میں عبارت “لاصلاۃ” مسجد Ú©Û’ پڑوسی Ú©ÛŒ نمازمیں کمال Ú©ÛŒ نفی پر تاکید کررہی ہے یعنی بتارہی ہے کہ وہ نماز جو مسجد کا پڑوسی مسجد میں ادا نہیں کرتا ہے، وہ کامل نماز نہیں ہے اور اس نماز Ú©ÛŒ کمال Ú©ÛŒ اس منزل تک رسائی نہیں ہے کہ جہاں تک ہونا چاہئے۔

اور حدیث وصیت میں عقلی ومنقول قرائن Ú©ÛŒ بنا پر جاہلیت Ú©ÛŒ موت سے مراد، نفی کمال ہے، یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص بغیر وصیت Ú©Û’ مرجائے، اس نےمعقول  زندگی سےکامل فائدہ نہیں اٹھا یا ہے اگر چہ اس معقول زندگی Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ مقدار اس  میں موجود ہے،لیکن حدیث  معرفت میں  معقول زندگی  Ú©ÛŒ نفی در اصل حقیقت Ú©ÛŒ نفی  ہے نہ صرف کمال Ú©ÛŒ نفی کررہی  ہے، یعنی ایسا شخص سرے سے ہی جاہلانہ زندگی کا مالک تھااور یہ کبھی بھی معقول زندگی سےفیضیاب نہیں ہوا ہے اور اسی بنیاد پر اس Ú©ÛŒ موت بھی جاہلانہ موت ہے۔

زبان وحی میں جاہلیت کی موت وحیات

خدا کا کلام اور وحی الٰہی، انسانی معاشروں کو زندگی عطاکرتی ہے:

{ $pkš‰r'¯»tƒ z`ƒÏ%©!$# (#qãZtB#uä (#qç7ŠÉftGó™$# ¬! ÉAqߙ§=Ï9ur #sŒÎ) öNä.$tãyŠ $yJÏ9 öNà6‹ÍŠøtä†﴾ ([27])

اے ایمان والو اللہ اور رسول Ú©Ùˆ لبیک کہو جب وہ تمہیں  حیات آفرین باتوں Ú©ÛŒ طر ف بلائیں۔ وحی اورنبوت انسانی معاشرہ Ú©Ùˆ زندہ کرتی ہیں ۔چونکہ قرآن وعترتِ پیغمبر علیہم السلام  Ú©Û’ درمیان ضابطہ یہ ہے کہ یہ دونوں اس میں ہم آہنگ اور یکساں ہیں لہذا ان میں سے جو ایک  کاحکم ہے وہی دوسرے کاحکم ہے۔ لہٰذا عترت Ú©ÛŒ آواز پر لبیک کہنا بھی حیات بخش ہے۔

جاہلیت کی موت، جاہلانہ زندگی کی علامت ہے اور وحی کی زبان میں جاہلیت کی زندگی موت کے برابر ہے، قرآن کریم جاہلانہ فکر کرنے والوں کو زندہ نہیں سمجھتا ہے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next