خوف و حزن کی اہمیت اور اس کا اثر (۲)



گناہ کی طرف متوجہ ہونے کا اثر شیطان سے دوری ہے:

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد والے جملہ میں مذکورہ بیان سے بالاتر فرماتے ہیں:

” یٰا اٴَبَاذَرٍ؛ إِنَّ الْعَبْدُ لَیُذْنِبُ الذَّنْب فَیَدْخُلُ بِہِ الْجَنَّةَ ، فَقُلْتُ: وَکَیْفَ ذٰلِکَ بِاٴَبٖی اٴَنْتَ وَ اٴُمِّی یٰا رَسُولَ الله؟ قٰالَ ، یَکُونُ ذٰلِکَ الذَّنْبُ نَصْبَ عَیْنَیہِ تٰائِباً مِنْہُ فٰارّاً اِلَی اللهِ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی یَدخُلَ الْجَنَّةَ“

          اے ابوذر! خدا کا بندہ گناہ کرتا ہے اور اس Ú©Û’ سبب بہشت میں داخل ہوتا ہے۔ میں Ù†Û’ عرض Ú©ÛŒ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ  پر فدا ہو جائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ آپ Ù†Û’ فرمایا: وہ گناہ Ú©Ùˆ ہمیشہ اپنی آنکھوں Ú©Û’ سامنے قرار دیتا ہے اور اس سے توبہ کرتے ہوئے خدا Ú©ÛŒ پناہ چاہتا ہے، یہاں تک کہ بہشت میں داخل ہوجاتا ہے۔

          کبھی بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس Ú©Û’ نتیجہ میں پریشان اور مضطرب ہوتا ہے۔ اور یہی خوف Ùˆ وحشت اس Ú©Û’ لئے توبہ، خدا Ú©ÛŒ پناہ میں قرار پانے اور شیطان Ú©Û’ پھندے سے آزاد ہونے کا سبب واقع ہوتا ہے۔ آخر کار وہ نفسانی خواہشات Ú©ÛŒ غفلت سے نجات پا کر پھرسے گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا ہے اور اس Ú©Û’ نتیجہ میں وہ بہشت میں داخل ہوتا ہے۔ شاید اگر وہ گناہ اس سے سرزدنہ ہوتا تو یہ حالت اس Ú©Û’ لئے پیش نہیں آتی۔ البتہ خدائے متعال Ú©ÛŒ طرف توجہ اور شیطان سے دوری اختیار کرنے کا قریب سبب وہی توبہ اور خدائے متعال سے خوف Ùˆ وحشتہے اور گناہ اس کا ”سبب بعید“ ہے لیکن بہر حال گناہ بھی سبب بن گیا ہے۔

          آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان انسان Ú©Ùˆ اس امر Ú©ÛŒ طرف ترغیب دینے Ú©Û’ لئے ہے کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا نفسانی احساس پیدا کرے۔ وہ خوف جو گناہوں Ú©Û’ ارتکاب Ú©Û’ بعد اس Ú©ÛŒ تلافی کرنے کا سبب واقع ہو اور جس Ú©ÛŒ وجہ سے وہ انسان بہشت میں داخل ہو جائے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، پس اس حالت Ú©Ùˆ پانے Ú©Û’ لئے کوشش کرنی چاہیے؟

حزن و خوف کی حقیقت کے بارے میں ایک تحقیق:

          یہاں تک اس حصہ میں روایت میں بیان شدہ حزن Ùˆ خوف Ú©Û’ بارے میں بحث تھی۔ اب چند سوالات پیش کر Ú©Û’ ان کا جواب دینا مناسب ہے، اگر چہ ان سوالات کا براہ راست واسطہ اس اخلاقی بحث سے نہیں ہے:

          منجملہ سوالات یہ ہےں کہ کیا خوف وحزن Ú©ÛŒ حالت اچھی ہے یا بری؟ اگر یہ کیفیت اچھی ہے تو خدائے متعال اپنے اولیا Ú©ÛŒ توصیف میںیہ کیوں فرماتا ہے:<لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ>  Û±#  اور اگریہ کیفیت بری ہے تو کیوں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم دوسروں Ú©Ùˆ اس Ú©ÛŒ ترغیب دیتے ہیں کہ ان دو خصلتوں Ú©Ùˆ اپنی ذات میں پیدا کرو؟ نیز فرمایا ہے: یہ دو چیزیں مغفرت اور گناہوں Ú©ÛŒ بخشش کا سبب ہیں۔

          جواب میں کہنا چاہیے: خوف Ùˆ حزن بہ ذات خود اپنے متعلق Ú©Ùˆ مدنظر رکھے بغیر نہ مطلوب ہے نہ مذموم، Ú©Ù„ÛŒ طور پرنہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کیفیت اچھی ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے یہ کیفیت بری ہے ØŒ بلکہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خوف ووحشت کس سے ہے نیز حزن Ùˆ اندوہ کس لئے ہے؟ خدائے متعال اور اس Ú©Û’ عذاب سے خوف ایک مستحسن اور مطلوب امر ہے، کیونکہ یہ خوف انسان Ú©Û’ لئے بیشتر خدا Ú©ÛŒ عبادت Ùˆ اطاعت اور گناہ سے پرہیز کرنے کا سبب بنتا ہے اور نتیجہ Ú©Û’ طور پر انسان Ú©ÛŒ اس امر میں مدد کرتا ہے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے اور سعادت Ùˆ خوشبختی Ú©Ùˆ حاصل کر Ú©Û’ بہشت میں داخل ہوجائے۔ اس Ú©Û’ برعکس دنیا Ú©Û’ لئے خوف ناپسند یدہ ہے، کیونکہ بنیادی طور پر دنیا Ú©ÛŒ طرف تمایل اور توجہ مطلوب نہیں ہےچہ جائے کہ اس Ú©Û’ بارے میں خوف کرنا Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 next