مهدی ومهدويت



چنانچہ آج کل کے ڈاکٹروں کا ماننا یہ ھے کہ جسم کے اھم اجزاء بی نھایت وقت تک باقی رہ سکتے ھیں اور انسان کے لئے ممکن ھے کہ وہ ہزاروں سال زندہ رھے اگر اس کے لئے ایسے عوارض پیش نہ آئیں جن سے ریسمان حیات قطع هوجائے، اور ان کا یہ کہنا صرف ایک گمان ھی نھیں ھے بلکہ وہ اپنے تجربات سے اس نتیجہ پر پهونچے ھیں ۔انسان ساٹھ ،ستر یاسو سال کی عمر میں نھیں مرتا مگر یہ کہ بعض عوارض کی بنا پر اس کے بعض اعضاء خراب هوجاتے ھیں یا بعض اعضاء کا دوسرے اعضاء سے ربط ختم هوجانے پر انسان کی موت واقع هوتی ھے اور جب سائنس اتنی ترقی کرلے گا کہ ان عوارض کو دور کرسکے تو پھر انسان کا سیکڑوں سال زندہ رہنا ممکنات میں سے هوجائے گا [76]

اس طرح ”جان روسٹن“ اپنے تجربیات اور کشفیات کی بنا پر قائل ھے کہ انسان کو سالم زندہ رکھنا کوئی محال کام نھیں ھے [77]

کیونکہ مشهورو معروف ماھرین نے جو گذشتہ صدیوں میں اکتشافات کئے ھیں ان سے یہ امید کی جاتی ھے کہ انسان ایک ایسا مرکب نسخہ تیار کرے گا جس سے مزید تحقیق کرنے کے بعد اس مرحلہ تک پهونچ سکتا ھے جیسا کہ ”براون سیکوارڈ“،” کسی کاریل“، ”فورنوف مینش بنکوف“، ”بوغو مولٹینر“اور ”فیلاتوف “وغیرہ نے تجربات کئے ھیں ۔

لیکن” روبرٹ ایٹنجر“ نے ابھی کچھ دنوں پھلے ایک بہترین کتاب بنام”کیاانسان کا ھمیشہ کے لئے زندہ رہنا ممکن ھے “ لکھی جس میں انسان کو مزید امیدوار کیا ھے اور یہ کھا یہ انسان جو زندہ ھے اور سانس لیتا ھے تو ان فیزیا ئیہ(وظائف اعضاء بدن) حصہ میں اپنی بقا کا مالک هوجاتا ھے، یعنی انسان کے اعضاء وجوارح اگر ان پر کوئی مشکل نہ پڑے تو یہ طولانی مدت تک کام کرسکتے ھیں۔

ان تمام وضاحتوں کے بعد علاوہ جن میں انسان کا ہزاروں سال باقی رہنا ممکن ھے ،اور اگر انسانی خلیوں کو برف میں رکھ دیا جائے تو وہ خلیے محفوظ رہتے ھیں او راگر ان کو برف سے نکال کر مناسب گرمی دی جائے تو اس کی حرکت واپس آجائے گی۔اور جب حقیقت یھاں تک واضح هوگئی اس کے علاوہ ھم عصر ماھرین نے بھی انسان کی طویل عمر کے امکان پر تاکید اور وضاحت کی ھے ، او ر ان وسائل کا پتہ لگانا جن کے ذریعہ سے انسان طولانی عمر حاصل کرسکتا ھے یھی ایک اسباب میں سے ایک اھم سبب ھے جس کی وجہ سے انسان دنیاوی مشکلات کو دفع کرسکتا ھے،پس جب انسان کا حسب استعداد وطبیعت باقی رہنے کا امکان صحیح ھے تو پھر حضرت امام مھدی (عج) کا اتنے سال زندہ رہنا حسب طبیعت اور ارادہ الٰھی کی بدولت ممکن اور صحیح ھے۔

قارئین کرام !   آپ Ù†Û’ گذشتہ مطالب Ú©Ùˆ ملاحظہ فرمایا اور چونکہ آج Ú©Ù„ کا یہ زمانہ جس میں Ú¾Ù… زندگی گذار رھے ھیں فکری اعتبار سے پر آشوب زمانہ Ú¾Û’ لہٰذا اس دور میں اس مصلح منتظر Ú©ÛŒ ضرورت کا احساس هوتا Ú¾Û’ جو صحیح راہ سے بھٹکی انسانیت Ú©Ùˆ صراط مستقیم Ú©ÛŒ طرف ہدایت کرے۔ اور چونکہ عقل بشری (مسلم وغیر مسلم) ایسے مصلح منتظر Ú©Û’ وجود ضروری کا اقرار کرتی Ú¾Û’ØŒ اگرچہ اس Ú©Û’ پاس آیات وروایات سے کوئی نص بھی موجود نہ هو جیسا کہ انگریزی مشهور ومعروف فلسفی ”برنارڈشَو“ Ù†Û’ اس مصلح منتظر Ú©Û’ بارے میں اشارہ کیا Ú¾Û’ او راپنے ذاتی نظریات Ú©Ùˆ اپنی کتاب ”الانسان والسوپر مین“ میں بیان کیا Ú¾Û’ ØŒ اس کا نظریہ Ú¾Û’ کہ یہ مصلح منتظر ایک زندہ اور صاحب جسم انسان Ú¾Û’ جن کا بدن صحیح وسالم Ú¾Û’ اور خارق العادة عقل کا مالک Ú¾Û’ وہ ایک ایسا اعلیٰ انسان Ú¾Û’ جس تک ایک ادنیٰ انسان جدوجہد Ú©Û’ ذریعہ Ú¾ÛŒ پهونچ سکتا Ú¾Û’ ØŒ اوراس Ú©ÛŒ عمر ۳۰۰سال  سے کھیں زیادہ طولانی Ú¾Û’ØŒ اور وہ قدرت رکھتا کہ ان تمام چیزوں سے فائدہ اٹھائے جس Ú©Ùˆ اس Ù†Û’ اپنی حیات میں حاصل کیا مثلاً اپنی زندگی میں تجربات کئے ھیں اور ان سے فائدہ اٹھاتا Ú¾Û’ تاکہ اپنے بدن Ú©Ùˆ صحیح وسالم رکھ سکے۔“[78]

چنانچہ جناب عباس محمود العقاد” برنارڈشو“ Ú©ÛŒ گفتگو پر حاشیہ لگاتے هوئے کہتے ھیں:  ”موصوف Ú©ÛŒ باتوں سے یہ اندازہ لگایا جاتا Ú¾Û’ کہ ”سوپر مین شو“ کا وجود ومحال نھیں Ú¾Û’ اور ان Ú©ÛŒ دعوت دیناایک مسلم حقیقت ھے“ [79]

آئےے آخر کلام میں خداوندعالم کی بارگاہ اقدس میں عرض کریں: ”اللّٰھم انا نشکو الیک فقد نبینا، وغیبة ولینا وکثرة عدونا وقلہ عددنا وشدة الفتن بنا، وتظاھر الزمان علینا، فصلی علی محمد وآلہ واعنا علی ذلک بفتح منک تعجلہ، وبضر تکشفہ ونصر تعزّہ وسلطان حق تظھرہ“ اللّٰھم انصرہ نصراً عزیزاً وافتح لہ فتحاً یسیراً واجعلنا من انصارہ واعوانہ انک سمیع مجیب“ وآخردعونا ان الحمد للہ رب العالمین۔

 


[1] اسی کتاب کی فصل امامت پر رجوع فرمائیں۔

[2] اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو جناب ابن حجر ھیتمی نے اپنی کتاب صواعق المحرقہ ص۹۹ میں بیان کیا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next