كیا "حی علیٰ خیر العمل" اذان كا جزء ھے؟



اب ھم حقیقت كو واضح كرنے كے لئے ان روایات كے بارے میں متن اور سند كے اعتبار سے گفتگو كریں گے، اس كے بعد اس سلسلہ كی باقی روایات كا تذكرہ كریں گے۔

ھمارے نزدیك یہ تمام روایات كئی وجھوں سے اپنے مدعا پر دلیل بننے كی صلاحیت نھیں ركھتی۔

پھلی وجہ: ان روایات كا منصب رسالت سے سازگار نہ ھونا

خداوند عالم نے اپنے رسول كو مبعوث كیا تاكہ وہ لوگوں كے ساتھ نماز كو اس كے وقت میں قائم كریں اور اس كا لازمہ یہ ھے كہ خداوند عالم اس كو انجام دینے كی كیفیت سے بھی آگاہ كرے۔

لھٰذا نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا اس سلسلہ میں بھت دنوں (یا ایك روایت كے مطابق بیس دن) تك حیران و پریشان رھنا كیا معنیٰ ركھتا ھے، كہ وہ اس ذمہ داری كو ادا كرنے كے طریقے سے نا واقف ھوں جو ان كے كاندھوں پر آچكی ھے؟؟ اور اپنے مقصود كو حاصل كرنے كے لئے ھر كس و ناكس سے مدد مانگتے پھریں۔ جب كہ نص قرآنی (كان فضل اللہ علیك عظیماً) 5 كے مطابق سب پر آپ كی فوقیت مسلم ھے۔ یھاں پر فضل سے مراد علمی برتری ھے جو سیاق آیت (و علّمك ما لم تكن تعلم) 6 سے واضح ھے۔ اور پھر نماز و روزہ عبادتی امور ھیں، جنگ و جدال كی طرح نھیں كہ جن كے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض اصحاب سے مشورہ فرمایا كرتے تھے۔ اور یہ مشورہ بھی اس لئے نھیں ھوتا تھا كہ آپ بھتر طریقہ نھیں جانتے تھے، بلكہ یہ لوگوں كو متوجہ كرنے اور ان كی تشویق كے لئے ھوتا تھا۔ جیسا كہ خداوند عالم كا ارشاد ھے (ولو كنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولك فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوكل علی اللہ) 7 "اے رسول…… اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ كھڑے ھوتے۔ لھذا اب انھیں معاف كردو، اور ان كے لئے استغفار كرو اور جنگی امور میں ان سے مشورہ كرو اور جب ارادہ كرلو تو اللہ پر بھروسہ كرو۔"

كیا یہ شرم كی بات نھیں كہ دینی امور میں عوام كے خواب و خیالات كو مصدر قرار دیا جائے؟ اور وہ بھی اذان و اقامت جیسی اھم عبادتوں كے لئے!! كیا یہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی شان میں گستاخی اور ان پر بھتان نھیں ھے؟

معلوم ھوتا ھے كہ یہ روایت عبداللہ بن زید كے قبیلہ والوں نے گڑھی ھے، اور اس خواب كو خوب مشھور كیا، تاكہ فضیلت ان كے قبیلہ كے نام ھوجائے۔ لھذا ھم بعض مسندات میں دیكھتے ھیں كہ اس حدیث كے راوی وھی ھیں۔ اور اس سلسلہ میں جس نے بھی ان پر اعتماد كیا، وہ ان سے حسن ظن كی بنیاد پر كیا ھے۔

دوسری وجہ: روایات میں بنیادی اختلاف

وہ روایتیں جو اذان كی تشریع اور آغاز كے سلسلہ میں وارد ھوئی ھیں، ان میں سرے سے ھی اختلاف اور تضاد پایا جاتا ھے۔ جو مندرجہ ذیل ھے:

الف) پھلی یعنی "سنن ابو داؤد" كی روایت كے مطابق عمر ابن خطاب نے عبد اللہ ابن زید سے بیس دن پھلے خواب دیكھا، لیكن چوتھی یعنی "ابن ماجہ" كی روایت كے مطابق انھوں نے اسی رات خواب دیكھا جس رات عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next