كیا "حی علیٰ خیر العمل" اذان كا جزء ھے؟



ب) اذان، عبداللہ ابن زید كے خواب كے ذریعہ شروع ھوئی۔ اور عمر ابن خطاب نے جب اذان كو سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے اور كھا: میں نے بھی یھی خواب دیكھا تھا، لیكن شرم كی وجہ سے آپ سے تذكرہ نھیں كیا۔

ج) اذان كو عمر ابن خطاب نے رواج دیا، نہ كہ ان كے خواب نے۔ اس لئے كہ انھوں نے خود اذان كو ایجاد كیا جیسا كہ ترمذی نے اپنی سنن میں ذكر كیا ھے: مسلمان جب مدینہ آئے… (یھاں تك كہ وہ كھتے ھیں)… اور بعض لوگوں نے كھا: سنكھ سے استفادہ كیا جائے۔ جیسا كہ یھودی كرتے ھیں۔ عمر ابن خطاب نے كھا كہ كسی سے اذان دینے كے لئے كیوں نھیں كھتے؟ لھذا رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یا بلال! قم فناد بالصلاة" اے بلال! اٹھو اور نماز كے لئے دعوت دو یعنی اذان كھو۔

ھاں ابن حجر نے "نداء بالصلاة" (نماز كے لئے اذان دینا) 8 سے اذان نھیں بلكہ "الصلاة جامعة" كی تكرار مراد لی ھے۔ لیكن ابن حجر كی اس بات پر كوئی واضح دلیل نھیں پائی جاتی ھے۔

د) اذان كو خود رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع كیا۔ بیھقی كی روایت ھے: … لوگوں نے ناقوس بجانے یا آگ روشن كرنے (كے ذریعہ نماز كی طرف بلانے) كا مشورہ دیا تو حضور (ص) نے بلال كو حكم دیا كہ اذان كو شفعاً (ھر فقرہ كو دوبار) اور اقامت كو وتراً (ھر فقرہ كو ایك بار) كھو۔ بیھقی كا بیان ھے كہ بخاری نے محمد بن عبد الوھاب اور مسلم نے اسحاق بن عمار سے یھی روایت نقل كی ھے۔ 9

ان تعارضات اور اختلافات كے ھوتے ھوئے بھلا ان روایات پر كیسے اعتماد كیا جاسكتا ھے؟

تیسری وجہ: خواب: ایك نھیں بلكہ چودہ اشخاص نے دیكھا

حلبی كی روایت سے یہ ظاھر ھوتا ھے كہ اذان كا خواب صرف عبد اللہ ابن زید یا عمر بن خطاب سے ھی مخصوص نھیں، بلكہ عبد اللہ بن ابوبكر نے بھی اسی طرح كے خواب دیكھنے كا دعویٰ كیا ھے۔ اور یہ بھی كھا جاتا ھے كہ انصار میں سے سات آدمیوں، اور ایك دوسرے قول كے مطابق چودہ لوگوں نے اذان خواب میں دیكھنے كا ادعا كیا ھے۔ 10

كیا كوئی صاحب عقل ان روایات، بلكہ خرافات كو قبول كرسكتا ھے؟؟ ارے بھائی! شریعت اور اسلامی احكام كوئی بازیچہ اطفال نھیں! جو خوابوں اور خیالوں سے تیار كر لئے جائیں۔ اور اگر اسلام كی یھی حقیقت ھے تو پھر ایسے اسلام كو سلام ھے۔ اس سلسلہ میں حقیقت یہ ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احكام شریعت كو وحی كے ذریعہ حاصل فرمایا كرتے تھے، نہ كہ ھر كس و ناكس كے خواب سے۔

چوتھی وجہ: بخاری سے منقول روایت اور دوسری روایات كے درمیان تعارض

بخاری نے صراحت كے ساتھ روایت نقل كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجلس مشاورت میں بلال (رض) كو یہ حكم دیا كہ نماز كے لئے لوگوں كو بلاؤ، اور حضرت عمر اس وقت وھاں موجود نھیں تھے۔ خود ابن عمر راوی ھیں كہ مسلمان جب مدینہ آئے تو نماز كے وقت، نماز كے لئے متوجہ كرنے اور اس كی طرف بلانے والے كی ضرورت كا احساس كر رھے تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next