كیا "حی علیٰ خیر العمل" اذان كا جزء ھے؟



ایك دن اس سلسلہ میں گفتگو كرنے لگے۔ بعض افراد نے "نصاریٰ" كی طرح ناقوس بجانے كا مشورہ دیا۔ بعض نے كھا كہ یھودیوں كی طرح قرن یا سینگ سے استفادہ كیا جائے۔ عمر بولے: كسی كو نماز كی دعوت دینے كے لئے كیوں نھیں بھیجتے؟ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! اٹھو اور لوگوں كو نماز كے لئے بلاؤ۔ 11

اور وہ صریحی روایت جو خواب كے بارے میں ھیں ان كے مطابق نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال (رض) كو اذان كا حكم، فجر كے ھنگام اس وقت دیا جب كہ ابن زید نے اذان كے سلسلہ میں اپنا خواب حضور سے بیان كیا۔ اور عبد اللہ بن زید كا خواب مجلس مشاورت كے كم از كم ایك رات بعد قابل تصور ھے۔

اور جب نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلال (رض) كو اذان كا حكم دے رھے تھے تو حضرت عمر وھاں موجود نھیں تھے، بلكہ جب اذان دی گئی تو وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ دوڑتے ھوئے آئے اس حالت میں، كہ ان كے كپڑے زمین پر گھسٹ رھے تھے اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كھنے لگے كہ یا رسول اللہ! قسم ھے اس پروردگار كی جس نے حق كے ساتھ آپ كو مبعوث كیا، یھی خواب میں نے بھی دیكھا ھے۔

اور ھمارے پاس ایسا كوئی قرینہ نھیں جس كی روشنی میں یہ كھا جاسكے كہ بخاری كی روایت میں "نداء بالصلاة" سے مراد "الصلاة جامعہ" كی تكرار ھے اور خواب كی روایتیں اذان كے سلسلہ میں ھیں۔ اور اگر كوئی اس طرح كی بات كھے بھی تو یہ بغیر كسی دلیل كے ھوگا۔

دوسرے یہ كہ اگر نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب بلال (رض) كو یہ حكم دیتے كہ الصلاة جامعہ كو با آواز بلند كھو تو مسئلہ ھی حل ھوجاتا، اور خصوصاً اگر اس كی تكرار كا حكم دیتے، تو حیرانی و پریشانی كی بات ھی نہ رہ جاتی۔

لھذا یہ اس بات كی دلیل ھے، كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز كی دعوت دینے كا جو حكم دیا اس سے مراد یھی معروف اذان شرعی تھی۔ 12

یہ چار مذكورہ وجوھات، احادیث كے مضمون كی تحقیق كا تقاضہ كرتی ھیں۔ اور یہ اشكالات مذكورہ، احادیث كے غیر قابل قبول ھونے كے لئے كافی ھیں۔ لیكن پھر بھی ھم ان كی اسناد كے بارے میں گفتگو كرتے ھیں۔ (تاكہ ھماری بات كی اور وضاحت ھوجائے) ان میں سے بعض كی سندیں موقوف ھیں، اور ان كا سلسلہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تك نھیں پھونچتا۔ اور بعض، مسند تو ھیں مگر ان كے راوی یا تو مجھول ھیں یا غیر موثق ھیں یا ضعیف۔ اور اسی وجہ سے علم رجال میں انھیں كوئی اھمیت نھیں دی گئی ھے۔ اب ھم ان تمام چیزوں كو آپ كے سامنے ترتیب وار، وضاحت كے ساتھ بیان كر رھے ھیں۔

پھلی روایت

جس كو ابو داؤد نے نقل كیا ھے، ضعیف ھے۔كیونكہ :

1) یہ روایت ایك، بلكہ كئی نا معلوم افراد سے منقول ھے، كیونكہ اس كی سند میں بعض راویوں كے نام كے بجائے اس طرح كے كلمات آئے ھیں: "انصار میں سے ان كے بعض خاندان والے" یا "یا انصار كے ایك گروہ نے ان سے روایت كی ھے۔"



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next