خدا کی معرفت عقل و فطرت کی روشنی میں



”انسان کا اصل وجود ایک خَلیہ " Cell "(جسم کا مختصر ترین حصہ)سے هوا ھے او ریھی ایک خلیہ"Cell" ھر مخلوق کی بنیاد ھے اورھر خلیہ ایک باریک پردہ میںلپٹا هوا هوتا ھے (جو غیر جاندار هوتا ھے) اور یھی پردہ، خلیہ کی شکل وصورت کو محدود کرتا ھے، پھر اس پردہ کے اندر سے خلیہ کا احاطہ کرلیتا ھے ایک اور جاندار پردہ، جو نھایت صاف و شفاف اور رقیق هوتا ھے اور یھی وہ پردہ ھے جو خلیہ میں دوسرے جزئیات کو داخل هونے کی اجازت دیتا ھے اور بعض جزئیات کو اس سے خارج هونے کا حکم دیتا ھے۔

اس کے بعد اس میں مختلف قسم کے لاکھوں کیمیاوی "Chemistry" (کیمسٹری) اجزاء پائے جاتے ھیں لیکن یہ اجزاء بہت ھی محدود هوتے ھیں ، چنانچہ ان میں سے بعض تو اتنے نازک هوتے ھیں کہ صرف دوذرّوں والے هوتے ھیں (جیسے کھانے کا نمک) اور بعض تین ذرووں والے هوتے ھیں (جیسے پانی کے اجزاء) اور بعض چار، پانچ، دس، سو اور ہزار اجزاء والے هوتے ھیں جبکہ بعض لاکھوں ذرات سے تشکیل پاتے ھیں (جیسے پروٹن "Proten" اور وراثتی "Geneticcs"اجزاء)

اسی طرح ہزاروں قسم کے اجزاء کا سلسلہ جاری رہتا ھے جن میں سے انسانی حیات کے لئے بعض قسم کے اجزاء پیدا هوتے ھیں اور بعض ختم هوجاتے ھیں اور یہ سب ایک دقیق کیمیاوی مشین کے ذریعہ فعالیت جاری رکھتے ھیں جن کے سامنے انسانی فکردنگ رہ جاتی ھے۔

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی ھم اس بات پر قادر نھیں ھیں کہ پروٹن کا ایک چھوٹا سا جز بھی بنالیں،جبکہ خود خلیہ کے اندر چندسیکنڈ کے اندر بن جاتا ھے۔

اور صرف پروٹن ھی نھیں ھیں بلکہ کیمیاوی مختلف عملیات ھےں جو بہت زیادہ دقیق ، نظام دقیق خلیہ اور اس کی ھیئت کے قانون کے زیر نظر جاری هوتی ھے ، اور اسی کو خلیہ کا کیمیاوی ادارہ کھا جاتا ھے۔

اسی خلیہ اوراس پر حاکم ادارہ کے اندر بہت سے اھم امور تشکیل پاتے ھیں۔ چنانچہ اس خلیہ میں دو جزء پائے جاتے ھیںجو دونوں اس کی زندگی میں بہت قیمتی جزء هوتے ھیں جن کے نام درج ذیل ھیں:

پھلا : حامض ھے، جس کو ”حامض ڈی اوکسی ریبو نیوکلیک“ "Deoxy Ribonuclec acid"کھا جاتا ھے جس کا مخفف "h.d,n"هوتا ھے۔

دوسرا: حامض اس کو ”حامض ریبو نیو کلیک “ "Ribonuclec Acid "کھا جاتا ھے اوراس کا مخفف ”ح۔ر۔ن“ "h.r.n"هوتا ھے۔

لیکن ”ح۔ ڈ ۔ ن“ ، ” ح۔ر۔ن“سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ھے صرف تھوڑا سا فرق ھے لیکن یہ کیمیاوی فرق ھی عالم خلیہ "Cells"میں اصل ھے مثلاً وراثتی "Geneticcs" اجزاء میں ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی اصل ھے اور ”ح۔ر۔ن“کا درجہ اس سے کم ھے۔

لہٰذا خلیہ کی زندگی اسی طریقہ ”ح۔ ڈ ۔ ن“ھی کی وجہ سے یہ اجزاء بڑھتے ھیں اور ان ھی کی وجہ سے اصل کے مطابق شکل وصورت بنتی ھے چنانچہ اس کے تحت کروڑوں سال سے انسان کی شکل وصورت اسی طریقہ پر هوتی ھے اور اس میں کوئی تبدیلی نھیں آتی، اسی طریقہ سے گدھا اور مینڈھک میں بھی ھےں کہ وہ اسی طرح کی شکل وصورت رکھتے ھیں اورا نھیں اپنے اپنے خلیوں کی بنا پر انسان بنتا ھے ، گدھا اور مینڈھک بنتا ھے او رھر مخلوق کی تمام صفات انھیں ”ح۔ ڈ ۔ ن“کی بنا پر بنتی ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next