خدا کی معرفت عقل و فطرت کی روشنی میں



خالق ازلی کے وجود کی ضرورت

وجودخالق کائنات کے دلائل کی بحث ایک قدیم زمانہ سے چلی آرھی ھے اور مختلف زمانہ میں مختلف طریقوں سے بحث هوتی رھی ھے نیز دلائل وبرھان بھی بدلتے رھے ھیں۔

اور جب سے انسان نے شعور اور ترقی کی طرف قدم اٹھانا شروع کیا ھے اسی وقت سے اس کی دلی خواہش یہ رھی ھے کہ وہ ”ماوراء الغیب“ کی باتوں کا پتہ لگائے، کیونکہ اس کی فطرت میں یہ بات داخل ھے کہ وہ مختلف اشیاء کے حقائق اور انتھا کا پتہ لگانے کے لئے بے چین ر ھے ، اوراس کے ذہن میں ھمیشہ یہ سوال اٹھتا رہتا ھے کہ وہ کھاں سے آیا؟ اور اس کی کیسے خلقت هوئی؟ اوراسے آخر کھاں جانا ھے۔؟

چنانچہ اسی فطرت کے تحت اس نے کائنات کے بارے میں معلومات کرنا شروع کی اور اس سلسلہ میں غور وفکر سے نھیں گھبرایا اپنی استعداد کے مطابق اس نے ھر زمانہ میں اپنی کوشش جاری رکھی اور مبداء اول (وہ خداجو تمام چیزوں کو وجود بخشنے والا ھے )کے وجود کی بحث اوراس کائنات کے اسرار کی معلومات ایک مقدمہ رھی ھے جس کا سمجھنا مشکل کام رھا ھے اگرچہ انسان نے اپنی بھر پور کوشش صرف کردی ھے۔

اور جب انسان نے اشیاء کے حقائق سمجھ لئے تو اس نے سب سے پھلے وجود کو محدود اور بسیط پایا اس کے بعد اس نے مرور زمان کے ساتھ اپنی معرفت کے لحاظ سے اس دائرہ معرفت کو وسیع کیا چنانچہ اس نے اپنی عقل کے معیار کے مطابق اس کائنات کے خالق کے وجود کے بارے میں اعتقاد پر دلیل قائم کی۔

اسی وجہ سے ھم دیکھتے ھیں کہ اس قدیم زمانہ میں انسان نے حیوانات، ستاروں اور دوسرے جمادات کی عبادت کی اور ان کو اپنا خدا تصور کیا، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یھی موت وحیات دیتے ھیں یھی خلق کرتے ھیں یھی رزق دیتے ھیں یھی عطا کرتے ھیں اور کسی چیز میں مانع هوتے ھیں اور صرف ان کی عبادت یا ان کی تصدیق پر ھی اکتفاء نہ کی بلکہ یہ ان کے لئے قربانی کیا کرتے تھے اور ان سے قریب کرنے والے کاموں کو کیا کرتے تھے تاکہ ان تک خیر وبرکت پهونچے اور ان سے بلاء وشر دور رھے۔

چنا نچہ انسانوں کے ایک گروہ نے جب سورج کو دیکھا کہ وہ سب چیزوں کو حیات ورُشد عطا کرتا ھے اور اس کے بغیر کو ئی بھی چیز زندہ نھیں رہ سکتی لہٰذا اسی کو خدا مان بیٹھے۔

جب انھوں نے چاند کو رات کے اندھیروں میں بھٹکتے هوئے لوگوں کو نور دیتے هوئے دیکھا تو اسی کو خدا مان لیا۔

جب انھوں نے ان ستاروں کود یکھا جو اپنی شعاعوںکی چمک دمک کو ایک دور درازمقام سے زمین کی طرف بھیجتے ھیں جو انسان کو سرگرداں اور حیران کردینے والی ھیں جو فکر انسان کو متحر ک کرکے مسدود کردیتی ھیں تو انسان یہ سمجھا کہ یھی نجوم خدا ھیں جن کی چمک دمک کائنات کو حیران وپریشان کئے هوئے ھے۔

اورآخر میں جب انھوں نے بعض ان حیوانات کو دیکھا جن کے ذریعہ سے ان کے کھانے پینے یا پہننے کی چیزیں حاصل هوتی ھیں یا ان میں عجیب وغریب چیزیں پائی جاتی ھیں یا ان کی قوت اور بھاری جسم کو دیکھا تو اس اعتقاد کے ساتھ کہ یھی خدا ھیں ان کی ھی عبادت شروع کردی۔!!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next