خدا کی معرفت عقل و فطرت کی روشنی میں



لہٰذا انسان نے اسی فطرت کے ذریعہ اس حقیقت کو سمجھا اورجب انسان کی یھی فطرت بسیط (غیر واضح) تھی تو اس کی دلیل بھی غیر واضح رھی اور جب فطرت انسانی واضح اور مکمل هوگئی تو انسان کی دلیل بھی واضح اور مکمل هوگئی، اس حیثیت سے کہ انسان اسی فطرت کے تحت اس بات کو مانتا رھا ھے کہ ھر اثر اپنے موٴثر پر دلالت کرتا ھے اور ھر موجود اپنے موجد (بنانے والے) پر دلالت کرتا ھے کیونکہ اونٹ کے پیر کے نشان اونٹ کے وجود پر دلالت کرتے ھیں اسی طرح پیروں کے نشانات گذرنے والوں پر دلالت کرتے ھیں توپھر یہ زمین وآسمان کس طرح لطیف وخبیر (خدا) پر دلالت نھیں کرتے۔؟!!

قارئین کرام ! انسانی فطرت اور اس کی وجہ سے خدا پر ایمان رکھنے والی مثال کی طرح درج ذیل واقعہ بھی ھے:

”ھم ایک روز بغداد میں دینی مسائل کے بارے میں تقریرکررھے تھے کہ اچانک ایک دھریہ اس تقریر کے دوران آگیا اور اس نے خدا کے وجود کے لئے دلیل مانگی، چنانچہ صاحب مجلس نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے متکلمین کے پاس ایک شخص کو بھیجا لہٰذا وہ شخص ایک متکلم کے پاس گیا اور واقعہ کی تفصیل بیان کی چنانچہ اس متکلم نے اس شخص سے کھا کہ تم چلو میں آتا هوں۔

ادھر سب لوگ اس کے منتظر تھے لیکن جب بہت دیر هوگئی اور لوگ اٹھنا ھی چاہتے تھے تو وہ متکلم بڑبڑاتے هوئے مجلس میں وارد هوا، اور صاحب مجلس سے اپنی تاخیر کی عذر خواھی کی اور کھا کہ میں نے خواہ مخواہ دیر نھیں کی بلکہ میں راستے میں ایک عجیب وغریب واقعہ دیکھ کر مبهوت رہ گیا اور مجھے وقت کا احساس نہ هوا اور جب کافی دیر کے بعد مجھے احساس هوا تو میں دوڑتا هوا چلا آیا۔

اور جب اس سے اس تعجب خیز واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کھا:

”جب میں آتے وقت دجلہ کے ساحل پر پهونچا تو میں نے ایک بہت بڑے درخت کو دیکھا کہ وہ دجلہ کی طرف جھکا اور خود بخود اس کے برابر تختے کٹتے چلے گئے او رپھروہ تختے آپس میں مل گئے یھاں تک وہ ایک بہترین کشتی بن گئی اور ساحل پر آکر رگ گئی اور میں اس کشتی میں سوار هوگیا اور وہ بغیر چلانے والے کے چل پڑی یھاں تک کہ اس نے مجھے دریا کے اس طرف چھوڑدیا او رپھر دوسرے لوگ اس میں سوار هوئے تو ان کو اُس طرف لے جاکر چھوڑ دیا اور وہ اسی طرح چلتی رھی، میں کھڑا اس منظر کو دیکھتا رھا، اوریھی میری تاخیر کا سبب ھے“

ابھی ان صاحب کی گفتگو تمام ھی هوئی تھی کہ اس دھریہ نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اس کا مذاق بناتے هوئے کھا:

”واقعاً مجھے اپنے اوپر افسوس هورھا ھے کہ میں نے اس شخص کے انتظار میں اپنا اتنا وقت برباد کیا! میں نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ بے وقوف اور احمق شخص نھیں دیکھا ! کیا کسی انسان کی عقل اس بات کو قبول کرسکتی ھے کہ کوئی درخت خود بخود کٹے،اس کے تختے بنیں اور وہ آپس میں جڑےں اور کشتی بن جائے او ر پھر وہ کشتی خود بخود چل پڑے اور مسافروں کو ادھر سے ادھر پهونچائے؟!!

یہ سن کر وہ متکلم بول اٹھے:

”جب اس چھوٹی سی کشتی کا بغیر بنانے والے کے بن جانا عقلی طور پر ناممکن ھے اور بہت ھی تعجب او ربے وقوفی کی بات ھے، تو پھر یہ زمین وآسمان، چاند وسورج او راس کائنات کی دوسری چیزیں خود بخود کس طرح بن سکتی ھیں؟!! او راب بتا کہ میری باتیں تعجب خیز ھیں یا تیری؟۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next