خدا کی معرفت عقل و فطرت کی روشنی میں



وللہ فی کل تحریکة

وفی کل تسکینة شاہد

وفی کل شیء لہ آیة

تدل علی انہ واحد

اس انسان پرتعجب ھے جو اپنے پروردگار کی (عمداً) معصیت کرتا ھے، بھلا خدا جیسی ذات کا کوئی انکار کرنے والا انکار کرسکتا ھے؟ !کیونکہ ذات پروردگار وہ ہستی ھے جس کی معرفت کے لئے ھر شی ٴ میں نشانی موجودھے جو خداوندعالم کے وحدہ لاشریک هونے پر دلالت کرتی ھے۔

مقدمہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔

الحمدلله رب العالمین والصلوة والسلام علی سیدنا محمد وآلہ الطیبین الطاھرین۔

جب سے انسان نے اس فرش زمین پر لباس وجود زیب تن کرکے قدم رکھا ھے اسی وقت سے اس نے اپنی حیات کے خلق اور عنایت کرنے والے کے بارے میں غور و فکر کرنا شروع کردیا، لہٰذا واجب الوجود (خدا ) کے بارے میں لوگوں کی گفتگو صرف آج کی پیدوار نھیں بلکہ یہ گفتگو قدیم زمانہ سے چلی آرھی ھے، البتہ زمانہ قدیم کے لوگ اپنی خالص فطرت، محدود مدرک علمی اوراپنی کم صلاحیت کے اعتبار سے مورد بحث قرار دیتے تھے یعنی جتنی ان کے پاس بحث کرنے کے لئے مدارک اور محدود ذہنی سطح تھی اسی لحاظ سے بحث کیاکرتے تھے، لیکن آج جب زمانہ نے ترقی کی اور انسان وسیع الذہن هوا تو اس (خدا) کے بارے میں گفتگو کا میدان بھی وسیع هوا، یعنی جیسے جیسے عقل وشعورنے ترقی کی اور ذہن انسانی میں وسیع نشوونما هوئی یھاں تک کہ اس فلسفی زمانہ میں عقل اپنے کمال تک پهونچی تو یہ واجب الوجود کے بارے میں بحث ومباحثہ بھی اسی بلندی کے ساتھ لوگوں میں رائج قرار پایا،جس میں جاھل اور منکرین خدا کے لئے کسی طرح کا کوئی اشکال واعتراض کرنے کا راستہ نھیں رہ جاتا۔

چنانچہ آج جبکہ علم اور سائنس کافی ترقی کررھا ھے بعض اسلام دشمن عناصر نے دین اسلام سے مقابلہ کی ٹھان لی ھے اور اسی سائنس وعلم کے ذریعہ خدا کے وجود کا انکار کرتے ھیں اور مسلمانوں کے عقائد کو کمزور وضعیف کرنے کی کوشش کرتے رہتے ھیں، چنانچہ کہتے ھیں کہ یہ عقلی قاعدہ(کہ ھر مخلوق کے لئے ایک خالق اور ھر موجود کے لئے ایک موجِد کا هونا ضروری ھے) درست نھیں ھے! بلکہ یہ کائنات خود بخوداور اتفاقی طور پر پیدا هوگئی ھے!!۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next