خوارج کا بدترین مظاہرہ



ابن عباس: ہرگز مومن کے شایان شان نھیں ھے کہ جب تک اس کا یقین اصول اسلامی میں شک سے آلودہ نہ ھو اپنے کفر کا اقرار کرے۔

خوارج : ان کے کفر کی علت یہ ھے کہ انھوں نے حکمیت کو قبول کیا۔

ابن عباس : حکمیت قبول کرنا ایک قرآنی مسئلہ Ú¾Û’ کہ خدا Ù†Û’ کئی جگہ پر اس کا تذکرہ کیا Ú¾Û’ØŒ خدا فرماتاھے :”  وَمَنْ قَتَلَہُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ“ (سورہ مائدہ: Û¹Ûµ)

( اے ایمان لانے والو شکار کو حالت احرام میں قتل نہ کرو) اور تم میں سے جو بھی اسے عمداً قتل کرے تو اسے چاھیے کہ اسی طرح کا کفارہ چوپایوںسے دے ، ایسا کفارہ کہ تم میں سے دو عادل شخص اسی جانور کی طرح کے کفارے کی تصدیق کریں۔

اگرخداوند عالم حالت احرام میں شکار کرنے کے مسئلہ میں کہ جس میں کم مشکلات ھیں ،تحکیم کا حکم دے تو وہ امامت کے مسئلہ میں کیوں نہ حکم دے اور وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کے لئے مشکل پیش آئے اس وقت یہ حکم قابل اجراء نہ ھو؟

خوارج: فیصلہ کرنے والوں نے ان کے نظریہ کے خلاف فیصلہ کیا ھے لیکن انھوں نے قبول نھیں کیا ھے۔

ابن عباس : فیصلہ کرنے والوںکا مرتبہ امام علیہ السلام کے مرتبہ وعظمت سے بلند نھیں ھے۔ جب بھی مسلمانوں کا امام غیر شرعی کام کرے تو امت کو چاھیے کہ اس کی مخالفت کرے ، تو پھر اس قاضی کی کیا حیثیت جو حق کے خلاف حکم کرے؟

اس وقت خوارج لاجواب ھوگئے اور انھوں نے شکست تو کوردل کافروں کی طرح دشمنی اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے اور ابن عباس پر اعتراض کیا اور کہا: تم اسی قریش کے قبیلے سے ھو جس کے بارے میں خدا نے کہا ھے: ” بَل ھُم قومٌ خصِمُون “ (زخرف: ۵۸) یعنی قریش جھگڑالوگروہ ھے۔ اورنیز خدا نے کہا ھے: ” وتُنذر بہ قوماً لدّاً “ (مریم :۹۷) قرآن کے ذریعےجھگڑالوگروہ کو ڈراوٴ۔[9]

اگر وہ لوگ حق کے طلبگار ھوتے اورکوردلی ، اکٹر اور ہٹ دھرمی ان پر مسلط نہ ھو تو ابن عباس کی محکم و مدلل معقول باتوں کو ضرور قبول کرلیتے اور اسلحہ زمین پر رکھ کر امام علیہ السلام سے مل جاتے اور اپنے حقیقی دشمن سے جنگ کرتے ، لیکن نہایت ھی افسوس ھے کہ امام علیہ السلام کے ابن عم کے جواب میں ایسی آیتوں کی تلاوت کی جو مشرکین قریش سے مربوط ھیں نہ کہ قریش کے مومنین سے۔

حَکَم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ھے کہ قرآن نے ان لوگوں کو چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں بھی مثلاً گھریلو اختلاف کو حل کرنے کے لئے جائز قرار دیا ھے اور اس کے نتیجے کو دونوں طر ف کے حسن نیت کو نیک شمار کیا ھے ،جیسا کہ ارشادھواھے : وان خِفتُم شقاقٌ بینھما فابعثوا حکماً من اھلہ و حکماً من اٴھلِھا ان یریدا اصلاحاً یوفِقُ اللّٰہُ بینھما ان اللّٰہ کان علیماً خبیراً (سورہ نساء : ۳۵)” اور اگر تمھیں میاں بیوی کی نااتفاقی کا خوف ھو تو مرد کے کنبہ سے ایک حکم اور زوجہ کے کنبہ سے ایک حکم بھیجواگر یہ دونوں میں میل کرانا چاھیں گے تو خدا ان کے درمیان اس کا موافقت پیدا کردے گا، خدا تو بے شک واقف وبا خبر ھے“۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next