خوارج کا بدترین مظاہرہ



خوارج : نھیں۔

امام علیہ السلام : کیا تم لوگ اس بات کی تصدیق کرتے ھو کہ تم لوگوں نے مجھے اس کام مجبور کیا جبکہ میں اسے ہر گز نھیں چاہ رہا تھا اور میں نے مجبور ھوکر تمہاری درخواست کو قبول کیا اور یہ شرط رکھی کہ قاضیوں کا حکم اس وقت قابل قبول ھوگا جب خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ؟ اور تم سب جانتے ھو کہ خدا کا حکم مجھ سے تجاوز نھیں کرے گا ( اور میں امام برحق اور مہاجرین و انصار کا چنا ھوا خلیفہ ھوں )۔

عبداللہ بن کوّاء: یہ بات صحیح ھے کہ ھم لوگوں کے اصرار پرآپ نے ان دونوں آدمیوں کو دین خدا کے لئے َحکمَ قرار دیا لیکن ھم اقرار کرتے ھیں کہ اس عمل کی وجہ سے ھم کافر ھوگئے اور اب اس سے توبہ کررھے ھیں اورآپ بھی ھم لوگوں کی طرح اپنے کفرکا اقرار کیجئے اور اس سے توبہ کیجئے اور پھر ھم سب کو معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیجئے۔

امام علیہ السلام : کیا تم جانتے ھو کہ خدا نے میاں بیوی کے اختلاف کے بارے میں حکم دیا ھے کہ دو آدمیوں کی طرف رجوع کریں ، جیسا کہ فرمایا ھے:کہ ” فابعثوا حکماً من اٴھلہِ وحکماً من اَھلِھا ؟ “اور اسی طرح حالت احرام میں شکار کے قتل کا کفارہ معین کرنے کے بارے میں حکم دیا ھے کہ حَکَم (فیصلہ کرنے والے) کے عنوان سے دد عادلوں کی طرف رجوع کریں جیسا کہ فرمایا ھے: ” یحکم بہِ ذوا عَدل ٍ مِنکُم ؟ “

ابن کوّاء:آپ نے اپنے نام سے ” امیر المومنین “ کا لقب مٹاکر اپنے کو حکومت سے خلع اور برکنار کر دیا۔

امام علیہ السلام : پیغمبرا سلام (ص) ھمارے لئے نمونہ ھیں۔ جنگ حدیبیہ میں جس وقت پیغمبر اور قریش کے درمیان صلح نامہ اس طریقے سے لکھا گیا :” ھذا کتابٌ کتبہ محمّدٌ رسولُ اللّٰہ وسُھیلُ بن عَمر “ اس وقت قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا: ، اگر آپ کی رسالت کا مجھے اقرار ھوتا تو آپ کی مخالفت نہ کرتا، لہٰذا اپنے نام سے ”رسول اللہ “کا لقب مٹادیجیے، اور پیغمبر نے مجھ سے فرمایا: اے علی! میرے نام کے آگے سے ” رسول اللہ “ کا لقب مٹادو، میں نے کہا: اے پیغمبر خدا(ص)! میرا دل راضی نھیں ھے کہ میں یہ کام کروں ، اس وقت پیغمبر نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنا لقب مٹادیا اور مجھ سے مسکرا کر فرمایا: اے علی !تم بھی میری ھی طرح ایسی سرنوشت سے دوچار ھو گے۔

جب اما م علیہ السلام کی گفتگو ختم ھوئی اس وقت دو ہزار آدمی جو ” حروراء “ میں جمع ھوئے تھے وہ حضرت کی طرف واپس آگئے ۔اور چونکہ وہ لوگ(خوارج) اس جگہ پر جمع ھوئے تھے اس لئے انھیں ” حروریّہ “ کہتے ھیں ۔[15]

 Ø¯ÙˆØ³Ø±Ø§ مناظرہ

خوارج کے سلسلے میں امام علیہ السلام کی سیاست یہ تھی کہ جب تک خون ریزی نہ کریں اور لوگوں کے مال کو برباد نہ کریں اس وقت تک کوفہ اور اس کے اطراف میں آزاد زندگی بسر کرسکتے ھیں ، اگرچہ روزانہ رات دن ان کے انکار کے نعرے مسجد میں گونجتے رھےں اور امام کے خلاف نعرے لگاتے ھیںاس وجہ سے امام علیہ السلام نے ابن عباس کو دوبارہ ” حروراء “ دیہات روانہ کیا ، انھوں نے ان لوگوں سے کہا: تم لوگ کیا چاہتے ھو ؟ ان لوگوں نے کہا : جتنے لوگ صفین میں موجود تھے اور حکمیت کی موافقت کی ھے وہ کوفہ سے نکل جائیں اور سب لوگ صفین چلیں اور وہاں تین دن ٹھہریں اور جو کچھ انجام دیا ھے اس کے لئے توبہ کریں اور پھر معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے شام روانہ ھوں۔

اس درخواست میںضدر ØŒ ہٹ دھرمی اور بیوقوفی صاف واضح Ú¾Û’ کیونکہ اگر حکمیت کا مسئلہ برا اور گناہ Ú¾Ùˆ تو ضروری نھیں Ú¾Û’ کہ توبہ اسی جگہ Ú©ÛŒ جائے جہاں گناہ کیا Ú¾Û’ اور وہ بھی اس شرط Ú©Û’ ساتھ کہ وہاں تین دن تک قیام کیا جائے ! بلکہ توبہ تو صرف ایک لمحہ بھر Ú¾ÛŒ  واقعی شرمندگی اور کلمہ استغفار Ú©Û’ ذریعہ ھوجاتی Ú¾Û’ Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next