خوارج کا بدترین مظاہرہ



یہ ہر گز نھیں کہا جا سکتا کہ امت کا اختلاف تین مھینے کی شدید جنگ کے بعد میاں اور بیوی کے اختلاف سے کم ھے لہذا یہ بھی نھیں کہا جا سکتا کہ اگر امت دونوں طرف سے دو آدمیوں کے فیصلے کو قرآن وسنت کی روشنی میں چاھے تو کام انجام دےا ھے اور کفر اختیار کیا ھے جس کے لئے ضروری ھے کہ توبہ کرے [10]

ان آیتوں پر توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ خوارج کا مسئلہٴ حکمین کو غلط کہنا سوائے ہٹ دھرمی ، دشمنی اور انانیت کے کچھ نہ تھا۔ ابن عباس نے صرف ایک ھی مرتبہ احتجاج نھیں کیا بلکہ دوسری مرتبہ بھی امام علی السلام نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے ابن عباس کو بھیجا اور اس پر گواہ یہ ھے کہ انھوں نے پچھلے مناظرہ میں قرآنی آیتوں سے دلیلیں پیش کی تھیں، جب کہ امام علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں انھیں حکم دیا تھا کہ خوارج کے ساتھ پیغمبر کی سنت سے مناظرہ کریں ، کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت زیادہ احتمال اور مختلف توجیھیں کی جا سکتی ھیں اور ممکن ھے خوارج ایسے احتمال کو لیں جو ان کے لئے مفید ھو، جیسا کہ حضرت فرماتے ھیں: ” لا تخاصِمھم بالقرآن ، فان القرآن حمّال ذو وجوہٍ تقول ویقولون ولکن حاججھُم بالسُّنة فانّھُم لن یجدوا عنھا محیصاً “ [11]خوارج کے ساتھ قرآن کی آیتوں سے مناظرہ نہ کرو کیونکہ قرآن کی آیتوں میں بہت سے وجوہ و احتمالات پائے جاتے ھیں اس صورت میں تم کچھ کھو گے اور وہ کچھ کھیں گے ( اور کوئی فائدہ نہ ھوگا) لیکن سنت کے ذریعے ان پر دلیل قائم کرو تو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ان کے پاس نہ ھوگا۔

خود  امام علیہ السلام کا خوارج Ú©ÛŒ چھاوٴنی پر جانا

جب امام علیہ السلام عظیم اور بزرگ شخصیتوں مثلاً صعصعہ بن صوحان عبدی ØŒ زیاد بن النضر اور ابن عباس وغیرہ Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ پاس ہدایت وراہنمائی Ú©Û’ لئے بھیجا مگر مایوس ھوئے تو خود آپ Ù†Û’ ارادہ کیا ان Ú©Û’ پاس جائیں تاکہ پوری تشریح ØŒ وضاحت Ú©Û’ ساتھ حکمین Ú©Û’ قبول کرنے Ú©Û’ مقدمات اورعوامل Ùˆ اسباب Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ سامنے بیان کریں اور یہ بتائیں کھوہ لوگ خود اس کام Ú©Û’ باعث بنے ھیں( مجبور کیا  تھا)ØŒ شاید اس Ú©Û’ ذریعے تمام خوارج یا ان میں سے Ú©Ú†Ú¾ لوگوں Ú©Ùˆ فتنہ وفساد سے روک دیں Û”

امام نے روانہ ھوتے وقت صعصعہ سے پوچھا: فتنہ وفساد کرنے والے خوارج کون سے سردار کے زیر نظر ھیں؟ انھوں نے کہا: یزید بن قیس ارحبی[12] لہذا امام علیہ السلام اپنے مرکب پر سوار ھوئے اور اپنی چھاوٴنی سے نکل گئے اور یزید بن قیس ارحبی کے خیمے کے سامنے پھونچے اور دورکعت نماز پڑھی پھر اپنی کمان پر ٹیک لگائی اور خوارج کی طرف رخ کر کے اپنی گفتگو کا آغاز کیا:

کیا تم سب لوگ صفین میں حاضر تھے؟ انھوں Ù†Û’ کہا :نھیں ۔آپ Ù†Û’ فرمایا: تم لوگ دوگروھوں میں تقسیم ھوجاوٴ تاکہ ہر گروہ سے اس Ú©Û’ مطابق گفتگو کروں Û” پھر آپ Ù†Û’ بلند آواز سے فرمایا: ”خاموش رھو شور وغل نہ کرو اور میری باتوں Ú©Ùˆ غور سے سنو، اپنے دل Ú©Ùˆ میری طرف متوجہ کرو اور جس سے بھی میں گواھی  طلب کروں وہ اپنے علم وآگاھی Ú©Û’ اعتبار سے گواھی دے “ اس وقت اس سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ کہ آپ ان لوگوں سے گفتگو کرتے اپنے دل Ú©Ùˆ پروردگارکی طرف متوجہ کیا اور پھر تمام لوگوں Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ طرف متوجہ کیا اور کہا:

” خدایا یہ ایسی جگہ ھے کہ جو بھی اس میں کامیاب ھوا وہ قیامت کے دن بھی کامیاب ھوگا اور جو بھی اس میں محکوم مذموم ھوگا وہ اس دوسری دنیا میں بھی نابینا اور گمراہ ھوگا“۔

”کیا تم لوگوں نے قرآن کودھوکہ اور فریب کے ساتھ نیزہ پر بلند کرتے وقت یہ نھیں کہا تھا کہ وہ لوگ ھمارے بھائی اور ھمارے ساتھ کے مسلمان ھیں اور اپنے گزشتہ کاموں کوچھوڑدیا ھے اور پشیمان ھوگئے ھیں اور خدا کی کتاب کے سایہ میں پناہ لئے ھوئے ھیں ھمارے لئے ضروری ھے کہ ان کی بات کو قبول کریں اور ان کے غم واندوہ کو دور کردیں ؟اور میں نے تمہارے جواب میں کہاتھا: یہ ایک ایسی درخواست ھے کہ جس کا ظاہر ایمان اورباطن دشمنی ،بغض وحسداورکینہ ھے اس کی ابتدا رحمت اور راحت اور اس کا انجام پشیمانی اور ندامت ھے۔لہذا اپنے کام پر باقی رھو اپنے راستہ سے نہ ہٹو، اور دشمن سے جہاد کرنے پر دانتوں کو بھینچے رھو اور کسی بھی نعرہ باز کی طرف توجہ نہ دو ، کیونکہ اگر اس سے موافقت کروگے تو گمراہ ھوجاؤگے اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑ دوگے تو وہ ذلیل وخوار ھوجائے گا۔بہرحال یہ کام (مسئلہٴ تحکیم) میری تاکید کے برخلاف انجام پایا اور میں نے دیکھا کہ ایسا موقع تم نے دشمن کو دیدیا ھے ۔[13]

ابن ابی الحدید ۳۶ ویں خطبہ کی شرح میں کہتا ھے :خوارج نے کہا: جو کچھ بھی تم نے کہا ھے وہ سب حق ھے اور بجا ھے لیکن ھم کیا کریں ھم سے تو بہت بڑا گناہ ھوگیا ھے اور ھم نے توبہ کرلیا ھے اور تم بھی توبہ کرو ، امام علیہ السلام نے بغیر اس کے کہ کسی خاص گناہ کی طرف اشارہ کریں، بطور کلی کہا: ” اَستغفِر اللّٰہ من کلّ ذنبٍ “ اس وقت چھ ہزار لوگ خوارج کی چھاوٴنی سے نکل آئے اور امام علیہ السلام کے انصار میں شامل ھوگئے اور ان پر ایمان لے آئے ۔

    ابن ابی الحدید اس استغفار Ú©ÛŒ توضیح میں کہتا Ú¾Û’ : امام علیہ السلام Ú©ÛŒ توبہ ایک قسم کا توریہ اور ”الحرب خُد عةٌ “ Ú©Û’ مصادیق میں سے ھے۔آپ  Ù†Û’ ایک ایسی مجمل بات Ú©Ú¾ÛŒ جو تمام پیغمبرکہتے ھیں اور دشمن بھی اس پر راضی ھوگئے ØŒ اس Ú©Û’ بغیرکہ امام علیہ السلام Ù†Û’ گناہ کا اقرار کیا Ú¾ÙˆÛ” [14]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 next