روایت میں پیغمبر اکرم (ص) کا زینب سے شادی کرنا



<علیھا ملائکة غلاظ شداد لا یعصون اللہ مااٴمرھم و یفعلون ما یوٴمرون>

جھنم پر سخت مزاج اور بے رحم فرشتے مقرر کئے گئے ھیں جو کبھی خدا کے ”امر“ کی مخالفت نھیں کرتے اور جس پر وہ مامور ھیں عمل کرتے ھیں ۔[13]

 Ú©Ù„مہ اور لفظ امر بیشتر اوقات جملہ میں معنی واضح ھونے Ú©ÛŒ وجہ سے استعمال نھیں کیا جاتا Ú¾Û’ جیسے خدا کا کلام سورہٴ طہ میں: <Ùˆ عصیٰ آدم ربہ>آدم Ù†Û’ اپنے رب Ú©ÛŒ نافرمانی Ú©ÛŒ یعنی آدم Ù†Û’ ”امر“ پروردگار Ú©ÛŒ نافرمانی کی۔[14]

کبھی کبھی نافرمان شخص کا نام بھی جملہ میں نھیں لایا جاتا جیسے فرعون Ú©Û’ بارے میں سورہ Ù´ نازعات میں آیا Ú¾Û’: < فکذب Ùˆ عصی > پس اس (فرعون )Ù†Û’ تکذیب Ú©ÛŒ اور نافرمانی Ú©ÛŒ Û” 

د۔ذنب: ذنب کی حقیقت ھر اس کام کا اثر اور نتیجہ ھے کہ جو آئندہ انسان کو نقصان دیتا ھے۔ یہ اثر کبھی بعض دنیاوی امور سے مخصوص ھوتا ھے اور طاقتوروں کی طرف سے ھوتا ھے جو انسانوں کو نقصان پھنچانے کی قدرت اور توانائی رکھتے ھیں، جیسا کہ موسیٰ کی گفتگو میں خدا سے مناجات کے موقع پر سورہٴ شعراء میں ذکر ھوا ھے۔

<و اذ نادیٰ ربک موسیٰ ان ائت القوم الظالمین# قوم فرعون الا یتقون# قال رب انی اخاف ان یکذبون# و یضیق صدری و لا ینطلق لسانی فاٴرسل الیٰ ھٰرون# و لھم علیِّ”ذنب“ فاخاف ان یقتلون# قال کلا فاذھبا بآیاتنا انا معکم مستمعون>

جب تمھارے رب نے موسیٰ کو آواز دی کہ ظالم اور ستمگر قوم فرعون کی طرف جاؤ، آیا وہ لوگ پرھیز نھیں کرتے؟!موسیٰ نے عرض کی: پروردگار ا! میں اس بات سے ڈرتا ھوں کہ کھیں وہ مجھے جھوٹا نہ کھیں اور میرا دل تنگ ھو جائے اور زبان گویائی سے عاجزھو جائے لہٰذا یہ پیغام ھارون کے پاس بھیج دے ان کا میرے ذمہ ”ایک گناہ“ ھے میں ڈرتا ھوں کہ کھیں وہ مجھے مار نہ ڈالیں، فرمایا: ایسا نھیں ھے، تم دونوں ھی ھماری نشانیوں کے ساتھ جاؤ، ھم تمھارے ساتھ سننے والے ھیں ۔[15]

موسیٰ کا کام ( گناہ) وھی قبطی شخص کو قتل کر ناتھا کہ جس کا ذکر سورہٴ قصص کی آیات میں اس طرح آیا ھے:

< ودخل المدینة علیٰ حین غفلة من اھلھا فوجد فیھا رجلین یقتتلان ھذا من شیعتہ و ھذا من عدوہ فاستغاثہ الذی من شیعتہ علیٰ الذی من عدوہ فوکزہ موسیٰ فقضیٰ علیہ قال ھذا من عمل الشیطان انہ عدو مضل مبین# قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفر لہ انہ ھوالغفور الرحیم# قال رب بما انعمت علی فلن اکون ظھیراً للمجرمین# فاٴصبح فی المدینة خائفاً یترقب فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ قال لہ موسیٰ انک لغوی مبین# فلما ان اراد ان یبطش بالذی ھو عدو لھما قال یا موسیٰ اترید ان تقتلنی کما قتلت نفساً بالامس ان ترید الا ان تکون جباراً فی الارض وما ترید ان تکون من المصلحین# و جاء رجل من اقصیٰ المدینة یسعیٰ قال یا موسیٰ ان الملاٴ یاٴتمرون بک لیقتلوک فاخرج انی لک من الناصحین# فخرج منھا خائفاً یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین>[16]

وہ جب اھل شھر غافل تھے شھر میںداخل ھو گئے، ناگھاں دو شخص کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا؛ ایک ان کا پیرو تھا اور دوسرا دشمن، جوان کا پیر و تھا اس نے دشمن کے مقابل ان سے نصرت طلب کی؛ موسیٰ نے ایک زبردست گھونسا اس کے سینہ پر مارا اور کام تمام کر دیا۔ اور کھا: یہ شیطان کے کام سے تھا جو کھلم کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ھے پھر کھا: خدایا!میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ھے مجھے معاف کر دے! خدا نے اسے معاف کر دیا کہ وہ بخشنے والا ھے عرض کیا: خدایا جو تونے ھمیں نعمت دی ھے اس کے شکرانہ کے طور ر میں کبھی مجرموں کی حمایت نھیں کروں گا! موسیٰ شھر میں خوفزدہ اور چوکنا تھے کہ اچانک دیکھا کہ وھی شخص جس نے کل نصرت کی درخواست کی تھی آواز دے رھا ھے اور ان سے مدد مانگ رھا ھے موسیٰ نے اس سے کھا: یقینا تم کھلم کھلا گمراہ انسان ھواور جب چاھا کہ اس پر سختی کرےںجو دونوں کا مشترکہ دشمن تھا تواس نے کھا: اے موسیٰ! کیا مجھے مار ڈالنا چاہتے ھو جس طرح سے کل ایک انسان کو قتل کر ڈالا ھے؟!کیا چاہتے ھو کہ تم زمین پر صرف جبار بن کر رھو اور مصلح بن کر رھنانھیں چاہتے! اس اثناء میں شھر کے دور دراز علاقہ سے ایک مرد تیزی کے ساتھ آیا اور بولا اے موسیٰ قوم کے سردار تمھارے قتل کا پروگرام بنا رھے ھیں ؛ باھر نکل جاؤ میں تمھارا خیر خواہ ھوں! موسیٰ خوفزدہ اورمحتاط انداز میں شھر سے باھر نکل گئے اور کھا: خدایا! مجھے اس ظالم قوم سے نجات دے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 next