زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



ہدایت کے طریقوں کا یکساں نہ ہونا:

افراد کو آگاہ کرنے اور انھیں ناپسندیدہ اعمال کے بارے میں متوجہ کرانے کے لئے یکساں طریقہ سے استفادہ نہیں کیاجاسکتاہے۔ جولوگ واجبات اور محرمات سے خاص آگاہی نہیں رکھتے ہیں اور دینی منابع ، جیسے قرآن مجید اور روایات تک جن کی رسائی نہیں ہے، انھیں جھوٹ، چغل خوری اور غیبت کے دنیوی نقصانات سے آگاہ کرنا چاہئے، یعنی غیبت کرنا مردار کا گوشت کھانے کے برابر ہے و غیرہ لیکن جو ہمیشہ کتاب و سنت سے سروکار رکھتے ہیںان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم انھیں ان گناہوں کے نقصانات کی طرف اشارہ کریں، کیونکہ وہ خود آگاہ ہیںبلکہ انھیں ان موارد سے آگاہ کرناچاہئے جن کے بارے میں وہ غفلت سے دوچار ہوئے ہیں۔انھیں اس بات سے آگاہ کرنا چاہئے، کہ اگر چہ بعض باتیں صحیح ہیں اور نیک نیتی سے کہی جاتی ہیں لیکن درست نہیں ہے اور اس میں خدا کی مرضی نہےں ہے اور ایسی باتیں سبب بنتی ہیں کہ انسان نقصان اٹھائے۔

جی ہاں، بعض مواقع پرکام ایک دوسرے کے دورخی ہوتے ہیں اور یہ انسان کی نیت اور غرض پر منحصر ہے کہ انھیں پسندیدہ ھویت بخشے یا ناپسندیدہ کبھی اگر کسی کام کو نیک نیتی سے انجام دیاجائے تو وہ کام نیک محسوب ہوتا ہے اور اگر اسی کام کو بُری نیت سے انجام دیاجائے تو وہ کام بُرا اور پست ہوتاہے، کیوں کہ اسلام میں ہر کام کی اہمیت انجام دینے والے کی نیت پر منحصر ہے۔ ممکن ہے انسان لاعلمی اور غفلت کے عالم میں ایک بُرے کام کو نیک نیتی سے انجام دے اور ممکن ہے اس کی نیت کی بنا پراسے ثواب ملے، اگر اسے ثواب نہ بھی ملے تو کم از کم معذور ہے۔ لیکن اگر ایک اچھے کام کو بُری نیت سے انجام دے تو اس کا کوئی ثواب نہیں ہے،اور وہ عبادت بھی نہیں ہے، ممکن ہے سزابھی ہو،کیونکہ اس کا عمل حسن اخلاق پر مبنی نہیں تھا۔ بولنے اور بات کرنے میں ایسی مثالیں زیادہ پائی جاسکتی ہیں۔

کبھی کسی شخص کی بارے میں بات چھڑ جاتی ہے اور انسان اس کی نیکیوں کوبیان کرنا چاہتاہے اور کبھی اس کی خوشنودی کے لئے، چاپلوسی ، مبالغہ اور بے جاتعریفیں کرتاہے۔اگر اس سے پوچھاجاتاہے: تم کیوں اس قدر چابلوسی، مبالغہ آرائی اور تملّق سے کام لیتے ہو؟ تو وہ جواب میں کہتاہے: میں دوسروں کا ذکر خیر کر کے تواضع او رانکساری دکھاناچاہتاہوں! البتہ انسان کی عالی اورممتاز خصوصیات میں سے ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کو شمار کرے اور کوشش کرے دوسروں کی نیکیوں کا ذکر کرے، روایتوں میں بھی اس نکتہ کی طرف تاکید کی گئی ہے ۔ایسا کر کے ہم ایک مومن کو عزت بخشتے ہیں اور اس کی آبرو بڑھاتے ہیں او ردوسروں کو بھی نیک صفات کے حوالے سے تشویق کرتے ہیں۔لیکن دیکھنا چاہئے کہ ہم کس نیت سے دوسروں کی ستائش کرتے ہیں؟ کیا ہم مومن کو عزت بخشنے کے لئے ، خداکی مرضی حاصل کرنے کے لئے اور معاشرت میں نیکی کی ترویج کے لئے دوسروں کی ستائش کرتے ہیں؟ یا اس کے سامنے یا اس کی عدم موجود گی میں اس کی ستائش کرتے ہیں کہ وہ ہم سے خوش ہو اور ہم اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں! اور وہ بھی ہماری اسی طرح تعریف کرے حقیقت میں یہاں پر ہمای مثال:”من تراحاجی بگویم تو مرا حاجی بگو“ کے مانند ہے۔ میں اپنے دوست کی عدم موجود گی میں اس کی تعریف کرتا ہوں او روہ بھی میری عدم موجود گی میں میری ستائش کرتاہے۔یہ ایسے مواقع میں جہاں پر شیطان پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اپنے شیشے میں اتارلیتاہے۔

عوام او رعام افراد کو جو حکم الہی سے آگاہ نہیں ہےں شیطان جھوٹ، غیبت اورمعروف گناہوں کو انجام دینے پراکساتاہے، لیکن علما کو دوسرے طریقوں سے دھوکہ دیتا ہے۔ جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر کسی کی عدم موجود گی میں اس کی تعریف کریں تا کہ وہ بھی مقابلہ میں ان کی ستائش کرے، تو انہوں نے اچھا کام انجام دیا ہے، حقیقت میں یہ اچھا کام نہیں ہے بلکہ یہ ان کے نفس کے مکر و فریب کا نتیجہ ہے۔

لہذا انسان کو ہوشیار رہنا چاہئے، اگر وہ کسی کام کو انجام دیناچاہتا ہے ، تو اسے پہلے اپنے دل میں پوری طرح غور و خوض کرنا چاہئے کہ اس کام کو انجام دینے کے لئے کو نسا مقصد مد نظر رکھتاہے۔ہرکام کو انجام دینے سے پہلے اس پر تھوڑاغور کرے اس کے بعد اس کام کو انجام دے، ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی زبان کوآزاد رکھے اور کسی قسم کی فکر کئے بغیر بات کہے ، کیونکہ احمق کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی زبان کو کنٹرول نہیں کرتاہے اور جوچاہتاہے کہہ دیتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام گفتگو کرنے کے حوالے سے عاقل اور احمق کے درمیان فرق کے بارے میں فرماتے ہیں:

”لسان العاقل وراء قلبہ و قلب الاحمق وراء لسانہ“ ۱

”عقلمند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بیوقوف کادل اس کی زبان کے پیچھے ہے۔“

مرحوم سید رضی رحمةاللہ علیہ اس عظیم المرتب بیان کی وضاحت میں فرماتے ہیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next