زبان،وسیلہ ہدایت یا وسیلہ گمراہی



” اولیائے الہی نے خاموشی اختیار کی ان کی خاموشی ذکر تھی ، ان کا نگاہ اٹھا کر دیکھا ان کا دیکھنا عبرت تھا اورانھوں نے گفتگو کی ان کی گفتگو حکمت تھی۔ وہ لوگوں کے درمیان پیادہ روی کی اور ان کا چلنا برکت تھا “

------------------------------------

۱۔ اصول کافی ، ج /۳، ص /۳۳۳، ح /۲۵

انسان کی سعادت و شقاوت اس سے بڑھ کر معاشرے کی تعمیر یا ایک سماج کے اقدار کی بیخ کنی کرنے میں زبان کا جو نقش رہا ہے اس کے پیش نظر خدائے متعال اور اولیائے الہی کی طرف سے اس کے متعلق بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے کہ انسان اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے۔ اور اجتماعی و اسلامی آدابنیز رفتار سے آگاہی حاصل کرے، اولیائے دین کی رفتار و کردار کے طریقوں کو اپنے لئے نمونہ قرار دے اپنی زبان کو خود سازی اور معاشرے کی اصلاح کے لئے استعمال کرے۔ اس لحاظ سے زبان کو کنٹرول کرنے اور اس سے صحیح استفادہ کرنے کا بہترین طریقہ انبیاء و اولیای الہی کی بات کرنے کے آداب کو مد نظر رکھنا ہے۔

معاشرت کے درمیان انبیاء لوگوں کو بات کرنے کے بہترین آداب کے طریقہ پیش کئے کہ نمونے کے طور پر ان کفار کے ساتھ انجام شدہ استدلالی مناظر پیش کئے جاسکتے ہیں، جو قرآن مجید میں بھی نقل ہوئے ہےں ، اس طرح جو باتیں وہ مومنوں کے ساتھ کرتے تھے اور جو مختصر سیرت ان کی نقل ہوئی ہے۔ اگر ہم پیغمبروں کی کفار اور ہٹ دھرم افراد کے ساتھ کی گئی گفتگو کی جانچ پڑتال کریں تو ہم اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ملے گی کہ جو کفار کے لئے خوشی کا باعث نہ ہواور بے ادبی اور بی احترامی پر مبنی ہو۔ جی ہاں، خدا کے پیغمبر کفار کی طرف سے اس قدر مخالفت ، گالم گلوج، طعنہ زنی، بے احترامی اور مذاق اڑ انے کے با وجود جواب ہیں بہترین بیان اور خیر خواہانہ نصیحتوں کے علاوہ کچھ نہیں کہتے تھے اور ان سے جدا ہوتے وقت سلام کئے بغیر جدا نہیں ہوتے تھے:

<وَ عبادُ الرَّحمٰن الّذین یَمشُونَ عَلی الارضِ ہوناً وَ اِذا خاطَبَہُم الجاہلونَ قالوا سلاماً> (فرقان / ۶۳)

” اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں ، تو وہ انھیں سلام کرتے ہیں “

جی ہاں، مشرکین جو خدا کے پیغمبروں کے خلاف اس قدر زخم زبان، تہمتیں اور بے احترامےاں رو ارکھنے کے با وجود قرآن مجید کے نقل کے مطابق کسی ایک پیغمبرنے بھی ان اذیت و آزاروں کے مقابلہ میں سختی یا بد زبانی سے جواب نہیں دیا ہے، بلکہ اس کے بر عکس نیک گفتار ، د ل کو موہ لینے والی منطق اور نیک اخلاق سے پیش آتے تھے۔جی ہاں یہ بزرگوار ایسی تعلیم و تربیت گاہ کے پروردہ تھے کہ جنھیں بہترین کلام کرنے اور زیبا ترین اد ب کی تعلیم دی جاتی تھی اور انہیں تعلیمات الہی میںسے ایک دستور ہے کہ جسے خدا ئے متعال حضرت موسیٰ﷼ اور ہاورن﷼ کو دیتے ہوئے فرماتا ہے:

<اذہبا الی فرعون انّہ طغی فقولا لہ قولاً لیّنا لعلّہ یتذکّرا و یخشی‘>

(طہ /۴۳و۴۴)



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 next